میرے لئے پاکستان کیلئے ایک طویل عرصہ بعد خوشی کی خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے سے انکار کیا اور اس کے نتیجے میں مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوگئے،اس کے ساتھ اطلاع یہ بھی ہے کہ اگلے سال پندرہ جنوری تک مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ ممکن ہے، اگر اگلے دو ماہ سے پہلے پہلے ہمیں عالمی سود خور سے مدد ملنے کا کوئی امکان ابھی تک موجود ہے تو کن شرائط پر؟ بتانے والے یہ ہمیں نہیں بتا رہے، قرضوں کی فضا میں زندہ رہنے والے کبھی یہ بتایا بھی نہیں کرتے، اگر موجودہ شرطوں پر ہی اپنی محکومی کو مزید بڑھانا ہے تو کون ہے جو حکمرانوں کا ہاتھ روک سکے، میں ریاضی کے مضمون میں ہمیشہ نالائق رہا ہوں، اس لئے آج اپنے ریاضی دان دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں، جو دوست مجھے جواب بھجوائیں گے ان جوابات کو میں اسی کالم کاحصہ بنا دوں گا، ایک معاشی حل تو عام ہو چکا ہے کہ اگر پاکستان بھر میں ریلویز کی رہائشی کالونیاں اور عمارات نیلام کردی جائیں تو نہ صرف غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود سے نجات مل سکتی ہے بلکہ پاکستان خوشحالی کے سفر پر بھی گامزن ہو سکتا ہے، لیکن میرے دماغ میں اس سے بھی آسان حل وارد ہوا ہے اور وہ ہے یہ۔۔ اگر لاہور کا ایم ایم عالم روڈ، لبرٹی مارکیٹ،مال روڈ، شادمان اور ڈیفنس کی دو چار مارکیٹیں اور کراچی کے طارق روڈ جیسے چند ایریاز قومی تحویل میں لے کر از سر نو نیلام کر دیے جائیں تو کیا اس کے مثبت معاشی نتائج نہیں برآمد ہو سکتے؟ لنڈا بازار اور نیپئیر روڈ جیسے علاقوں میں سرکاری سطح پر مارکیٹیں اور پلازے بن جائیں تو کیا ہم اپنا خالی خزانہ ہر ماہ بھرنا شروع نہیں کر سکتے؟ ٭٭٭٭٭ کئی سال سے میں ہر جگہ، ہر محفل میں،ہر تقریب میں دوستوں سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ پاکستان میں لوگ اپنے گھر کیسے چلا رہے ہیں،لوگ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے موضوع گفتگو ہی بدل لیتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے طبقے کے لوگوں کے پاس اس سوال کا جواب ہی موجود نہیں ہے، یہ سوال نہیں پتھر ہوتا ہے جو میں بلا وجہ اپنے دوستوں کے سروں میں مارتا رہتا ہوں ، یہ پتھر میں اس وقت تک اپنے سارے دوستوں کو اس وقت تک مارتا رہوں گا جب تک وہ اس کا جواب نہیں ڈھونڈھ لیتے۔ ٭٭٭٭٭ دو دن پہلے عید میلاد النبی ؐپر ذوالقرنین شاہ اور نعیمہ کے گھر پر ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب سے مہینوں بعد ملنا ہوا، وہ میرے جدوجہد کے عظیم ساتھیوں میں سب سے عظیم ساتھی ہیں ،ان سے میری پہلی ملاقات پچاس سال پہلے شاید شعیب بن عزیز کے ساتھ انار کلی کے قریب ہیلی کالج کے ہاسٹل میں ہوئی تھی جب وہ پورے شباب پر تھے، ان کے دمکتے چہرے پر بہت جاذبیت تھی ، آج بھی وہ جہاں بھی جائیں لوگ انہیں پہچان لیتے ہیں، ان سے محبتوں کا اظہار کرتے ہیں ان کے ساتھ تصویریں اور سلفیاں بنواتے ہیں، مگر میں نے آج تک ان سے ملنے والا کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے کبھی پوچھا ہو کہ ڈاکٹر اجمل نیازی رہتے کہاں ہیں؟ اور بڑھاپے میں ان کے کوئی مسائل تو نہیں ہیں، کتنے اجمل نیازی ہم نے محض ان کی عزت احترام کرتے کرتے مار دیے، اللہ پاک ڈاکٹر صاحب کو مکمل صحت اور طویل عمر عطا فرمائے، جب ایک وہ بھی نہ رہے تو حکمرانوں سے ادیبوں شاعروں تک سب کی جانب سے روایتی قصیدے سامنے آئیں گے اور کہا جائے گا کہ پاکستان ایک بہت بڑے کالم نگار،شاعر اور صحافی سے محروم ہوگیا، میں ڈاکٹر اجمل نیازی کی اہلیہ محترمہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو ڈاکٹر صاحب کا بچوں کی طرح دھیان رکھتی ہیں انہیں گھر میں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتیں، یہی محبت ڈاکٹر صاحب کے بچوں میں بھی اپنے عظیم باپ کا مکمل دھیان رکھتے ہیں، پتہ نہیں پاکستان میں ادب و صحافت کے نام پر کروڑوں روپے کماتے ہیں اور انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ کون بیمار ہے اور کون قید تنہائی میں ہے؟ اور کون وحدت کالونی کے ساٹھ سال پہلے بنے ہوئے تین مرلہ کے بوسیدہ اور خستہ حال سرکاری کوارٹر میں بیٹھ کر ادب تخلیق کرتا رہا ، انہیں میں نے دو شخصیات سے بہت پیار کرتے دیکھا ہے، ایک تھے منیر نیازی صاحب جنہیں وہ اب تک اپنے قبیلے کا سردار مانتے ہیں اور دوسرے عمران خان جو اس وقت وزیر اعظم پاکستان ہیں، مجھے یاد ہے کہ کم و بیش پچیس سال پہلے میں اور اجمل نیازی ایک ساتھ سیر کیلئے ناروے گئے، ایک دن جب کہ ان کی مداح ایک خاتون ہم دونوں کو اپنی گاڑی پر سیر کرا رہی تھی، میں نے ازراہ مذاق عمران خان کے خلاف کوئی بات کہہ دی، اجمل نیازی نے میری بات کا اتنا زیادہ برا منایا کہ اگلے دس دن یعنی جب تک ہم ناروے میں رہے اجمل نیازی مجھ سے ناراض رہے۔ ٭٭٭٭٭ اکیس نومبر کی رات پاکستان کی اس خاتون شاعرہ کا انتقال ہوگیا جو اپنی غیر روایتی شاعری کے باعث کسی زمانے میں بہت متنازعہ رہیں، فہمیدہ ریاض نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اس وقت بہت شہرت پائی جب ان کے خلاف ان کی مزاحمتی شاعری کے باعث بغاوت کے کئی مقدمات درج ہوئے اور انہیں پاکستان کے دشمن ملک میں پناہ لینا پڑی، بھارت میں پناہ لینے والی وہ واحد شاعرہ نہیں تھیں، انہی دنوں مسعود منور نے بھی پناہ کیلئے اسی ملک کا چناؤ کیا تھا ،فہمیدہ ریاض جمہوریت پسند شاعرہ تھیں جنرل ضیاء کی موت کے بعد وہ فوری طور پر واپس وطن لوٹ آئیں، ان کی شاعری دراصل ان کے اس اصرار کا پرتو تھی کہ عورت اور مرد کے درمیان کسی بھی قسم کا فرق نہیں ہوتا، پاکستان میں اس موضوع پر کوئی شاعری کرے اور وہ بھی ایک عورت، یہ کوئی آسان کام تھا نہ آج بھی یہ سہل ہے،انہوں نے عورتوں کے حوالے سے جنسی رحجانات کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور نوجوان نسل کی محبوب شاعرہ بن گئیں، فہمیدہ ریاض کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا، انہوں نے جہاں اور بہت سے کارنامے انجام دیے وہیں،شیخ ایاز اور مولانا جلال الدین رومی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں ترجمے کئے، فہمیدہ ریاض میری فیس بک فرینڈ بھی تھیں، فرینڈ شپ کی ریکوئسٹ ان کی طرف سے آئی تھی جسے میں نے اپنے لئے اعزاز تصور کیا، دو تین سال پہلے کراچی میں احفاظ الرحمان صاحب کی کتاب سب سے بڑی جنگ کی تقریب رونمائی میں اسٹیج پر میں بھی ان کے ساتھ بیٹھا تھا، مگر اس دن بھی ان سے براہ است کوئی مکالمہ نہ ہوسکا۔۔۔۔فہمیدہ ریاض کی ایک نظم کے چند اشعار۔۔ سب بات سمجھ رہا ہے لیکن گم سم سا مجھ کو دیکھتا ہے جیسے میلے میں کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے اس کے سینے میں چھپ کر روؤں میرا دل تو یہ چاہتا ہے کیا خوش رنگ پھول ہے وہ جو اس کے لبوں پر کھل رہا ہے یا رب ! وہ مجھے کبھی نہ بھولے میری تجھ سے یہی دعا ہے