تلمیذ الرحمان جو کہیں چھَپتا نہیں مشاعرے میں سُناتا نہیں، جو ابھی کل تک ایک راز تھا اور اب منکشف ہونے والا ہے۔ مکان موجود ہے مگر اپنے شہر میں شاعر نہیں رہتا۔ گائوں میں بھی نہیں۔ کھیتوں میں گھر بنایا ہے۔ چھت پر بیٹھ رہتا ہے۔ سحر جب سانس لیتی ہے۔ چاروں اور پھیلی دھند میں دھیرے دھیرے مناظر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ چاروں طرف پھیلی ہریالی میں روشنی جب اپنے تیور بدلتی ہے، سائے جب دراز ہوتے اور گھٹتے ہیں، دور افق میں جب سورج ڈوبتا ہے، تیز ہوا میں جب شاخیں لہراتی ہیں، سحر دم جب پرندے چہچہاتے اور جھٹ پٹے میں گھونسلوں کا رخ کرتے ہیں، اس آدمی کا نام اسد رحمان ہے۔ اسی کا دکھ تو ہر اک بات کے علاوہ ہے  وہ ایک غم جو تری ذات کے علاوہ ہے  وہ شب گزیدہ بدن تھے جنہیں سحر نے کہا  یہ زہر دن کا ہے اور رات کے علاوہ ہے  ابھی پرانے خداؤں کو میں نہیں بھولا  نفی کا دکھ مجھے اثبات کے علاوہ ہے  اسی سفر میں ندامت کی حد بھی آتی ہے  اور ایسی حد کہ جو میقات کے علاوہ ہے  میں اس لئے بھی اسے معتبر نہیں کہتا  جو تجزیہ ہے وہ جذبات کے علاوہ ہے  وہ مجھ سے جیت کر آگے کسی سے ہار گیا  اور اس کا رنج مجھے مات کے علاوہ ہے  زمیں کہاں ہے جسے میں کہوں زمیں اپنی  فلک کدھر ہے جو ان سات کے علاوہ ہے  ٭٭٭٭ جو اب گِرا تو گروں گا نہیں دھڑام سے مَیں بکھر چکا ہوں بہت پہلے اِنہدام سے مَیں پھر اس کے بعد جو مقتل میں ہو مگر فی الحال  یہ دیکھ لایا گیا ہوں کس اہتمام سے مَیں  جو لوگ میرا تعارف تھے خوش نہیں مجھ سے  پکارا جانے لگا ہوں اب اپنے نام سے مَیں  بڑی عجیب سی نظروں سے لوگ دیکھتے ہیں  اب آ بھی جاو کہ بیٹھا ہوا ہوں شام سے مَیں  زمین پاؤں تلے تھی نہ آسماں سر پر  گذر کے آیا ہوں ایسے بھی اک مقام سے مَیں  معاف کر دیا میں نے تو کیا بنے گا ترا  ڈرا رہا ہوں تجھے اپنے انتقام سے مَیں  اک اتفاق تھا اب جو بھی رنگ دیں اس کو  وہ اپنے کام سے آیا تھا، اپنے کام سے مَیں  ٭٭٭٭ تکمیل کی طلب نے کیا در بدر مجھے  آدھا اْدھر رکھا گیا آدھا اِدھر مجھے  اب دیکھتا ہوں روز رقیبانِ رْوسیاہ  مہنگا پڑا ہے یار کے کوچے میں گھر مجھے  تیرے بغیر ہوتا نہیں دْور خالی پن  اے دردِ لاشریک ذرا پھر سے بَھر مجھے  وحشت حدودِ ضبط میں رکھی تمام عمر  پر جو ہوا ہے آج اْسے دیکھ کر مجھے  جلتی رْتوں کی دھوپ میں سایہ تو ہے مرا  مت کاٹیے گا دیکھ کے یوں بے ثمر مجھے  مایوس ہو گئے مجھے مسمار دیکھ کر  جو لوگ کرنے آئے تھے اس بار سَر مجھے  واعظ کی ضد میں خوفِ خدا بھی گیا اسد  ورنہ تو اپنے آپ سے لگتا تھا ڈر مجھے  ٭٭٭٭  جب سے حلاجء کردار مجھے عشق نے دی خوش سخن گرمء گفتار مجھے عشق نے دی  جسم و جاں طوفِ خرابات میں مشغول ہوئے  کیا عجب گردشِ سیار مجھے عشق نے دی  کچھ بغاوت کے عناصر مری ترکیب میں تھے  اور کچھ  جْراتِ انکار مجھے عشق نے دی  گومری خاک نے بھی مجھ کو فضیلت بخشی  پر سماوات کی دستار مجھے عشق نے دی  دل میں مدفون خزانوں کا پتہ کب چلتا  وہ تو اک چشمِ گہربار مجھے عشق نے دی  کہہ اٹھی ہے سرِ مقتل یہ فنا بھی آخر  مات اس کھیل میں ہر بار مجھے عشق نے دی  مَیں زمانے میں محبت کا ولی ٹھہرا ہوں  اور ولایت مری سرکار مجھے عشق نے دی  ٭٭٭٭ اوج پر آئے ہوئے چاند کی اس رات کا رنگ   شہرِ انکار پہ چھاتا ہوا  اثبات کا رنگ  میں تو خوشبو کی زباں ایسے سمجھ لیتا ہوں  جیسے پھولوں نے چْرایا ہو تری بات کا رنگ  یہ فقط تیرے بدلنے سے کْھلا ہے مجھ پر کیسے پل بھر میں بدلتا ہے سماوات کا رنگ تیری باتوں کی حلاوت سے نشہ بڑھتا ہے  تْرش لہجے سے ہی اترے گا خرابات کا رنگ   کیسے آئینے میں دیکھوں گا مَیں صورت اپنی  جب مری ذات سے اترے گا تری ذات کا رنگ  ایسے اشکوں کی روانی سے دھلے خال و خد جیسے برسات میں نکھرا ہو نباتات کا رنگ  تْو نے جانی ہی نہیں طرزِ پذیرائی مری تْو نے دیکھا ہی نہیں میری مدارات کا رنگ ایسے چھینا ہے ترے ہجر نے سب میرا جمال  جیسے کھا جائیں مہ و سال عمارات کا رنگ  میرے ماتھے سے رواں سیلِ ندامت نے اسد  کہیں چھوڑا ہی نہیں کوئی عبادات کا رنگ ٭٭٭٭  پڑے رہیں گے وہیں پاوں کو پسارے ہوئے  جواری لوٹ کے آتے نہیں ہیں ہارے ہوئے  ہمارا دھیان تھا محفل میں ایک دوجے پر  وہ تبصرے تو سنا جو ہمارے بارے ہوئے  مجھے تو بھولی نہیں ہے وہ انتظار کی عمر  تمہیں بھی یاد ہیں؟ کچھ پَل کہیں گزارے ہوئے اس ایک وہم نے اب تجھ سے جوڑ رکھا ہے  کہ ٹوٹ جاتے ہیں گہنے ترے اتارے ہوئے  شعاعِ مہر سے ہم راکھ ہو گئے لیکن  ہمارے ساتھ کے ذرّے تھے جو ستارے ہوئے  تلمیذ الرحمان جو کہیں چھَپتا نہیں مشاعرے میں سُناتا نہیں، جو ابھی کل تک ایک راز تھا اور اب منکشف ہونے والا ہے۔