ہم نے آج تک روپے پیسے کے لیے تو کوئی خاص دعا نہیں مانگی، وہ رازقِ برحق گزارے لائق دیتاہی چلا جاتا ہے لیکن کامل تندرستی، اچھے دوستوں اور عمدہ کتابوں کے لیے جھولیاں اٹھا اٹھا کے التجائیں کی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ اس رحیم کریم نے کبھی مایوس نہیں کیا، عاریتاً، تحفۃً، قیمتاًیہ خزانہ بھرتا ہی چلا جاتا ہے۔اچھی کتاب تو آپ کے اوپر ایسا نشہ طاری کر دیتی ہے کہ جسے تلخ سے تلخ حالات کی تُرشی بھی نہیں اتار پاتی۔ یہ کتاب ہی کی کرامت ہے کہ زندگی میں کبھی بوریت کا منھ نہیں دیکھنا پڑا۔ کتاب تو آپ سے وہ وہ کچھ کہہ دیتی ہے جو بے تکلف دوست اور شدید ترین رشتے دار بھی نہیں کہہ سکتے۔ دوستوں میں تو پھر بھی زیادہ سے زیادہ دو ہی اصناف سے متعلق سوچا جا سکتا ہے لیکن کتاب میں تو افسانہ، ناول، سوانح،آپ بیتی، خاکہ، سفرنامہ، شاعری، مزاح، حتّٰی کہ تراجم تک کا تنوع موجود ہوتا ہے۔ ان سب اصناف کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلّم لیکن آپس کی بات ہے کہ جو کیفیت اور سرُور ایک اچھا ناول چھوڑ جاتا ہے وہ کسی دوسری صنف کے بس کی بات نہیں۔ لالہ بسمل جو دوستوں میں اپنی تُک بازی کے لیے بہت مشہور ہیں، نہ جانے کن حالات سے سرشار ہو کر یہ عجیب و غریب غزل لکھی تھی: ؎ دال چاول لذیذ ہوتے ہیں بعض ناول لذیذ ہوتے ہیں جو حرفوں کو معتبر کر دیں ایسے واول لذیذ ہوتے ہیں جو حسینوں نے باندھ رکھے ہوں ایسے ٹاول لذیذ ہوتے ہیں لگتا ہے اُن پہ کسی اچھوتے ناول نے ایسا جادو کیا ہوگا کہ وہ ناول کے قافیے کو خطرناک حد تک نبھاتے چلے گئے۔تمہید ذرا لمبی ہو گئی، اصل میں آج ہمارا موضوع دو دبنگ (Bold)ناول ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ جنس وہ چیز ہے، جو ہر بالغ انسان، حیوان کی بنیادی ضرورت ہے۔ نہ صرف ضرورت ہے بلکہ وجہِ بقائے کائنات ہے لیکن نہ جانے اسے کیوں ہمارے ہاں شجرِ ممنوعہ کی طرح ٹریٹ کیا گیا۔ ہمارے ہاں چوری چکاری، جھوٹ، دھوکا دہی، ملاوٹ، رشوت حتیٰ کہ قتل تک کا سرِ عام ذکر کیا جاتا ہے لیکن اس موضوع پہ ہم نوجوان نسل کو مناسب رہنمائی تک دینے سے بھی کتراتے ہیں بلکہ یہاں جنسی معاملات اور اعضا کا تذکرہ محض گالیوں میں دوسروں کی ماؤں بہنوں کو نوازنے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ مذہب اور سائنس دونوں جنسی بھوک کو معدے کی بھوک سے زیادہ اہم قرار دیتی ہے لیکن ہماری اسی کج ادائی کی بنا پر یہ جائز انسانی عمل مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے، نوجوا نوں میں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ: ؎ ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں اس سلسلے میں پہلا ناول جناب محمد الیاس کا ’’رنگ ریز‘‘ ہے۔ محمد الیاس کا نام میرے لیے نیا نہیں ہے بلکہ کُہر، برف، بارش، پُروا، دُھوپ اور حبس کی صورت بہت سے کامیاب ناول اور درجن بھر افسانوی مجموعے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان کی شمالی علاقہ جات میں گوشہ نشینی کی بنا پر، چکاچوند کی ماری اس قوم نے ان ناموں کو موسمیات کے منظرنامے ہی خیال کیا ہوگا، حالانکہ یہ سب ناول ہمارے سماج کے اندر اور باہر کے ہر دم بدلتے منظرناموں اوررسم رواج کے جمود زدہ موسموں کی خوبصورت تصویریں ہیں۔ ۲۶۴ صفحات کے اس تازہ ترین ناول میں جنس کی ضروت، اہمیت اور وقعت کا ادراک بہت سے جائز، ناجائز انسانی رویوں سے کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس میں کریم بخش رنگ ریز کے کردار کے ذریعے ہندوؤں میں آریہ سماج سے آئی ایک رسم’ ’ نیوگ‘‘ (کرائے کے مرد کا حصول) اولاد کے جائز ناجائز حصول کی کشمکش، کلکتہ کے ہسپتال میں انسانوں، اور گدھوں، گھوڑوں کی باہمی پیوند کاری، مردانہ اوصاف سے محروم رفیق کی بیوی کو باندھ کے رکھنے کی ہوس، شکیلہ کا بے مہار جنسی گھمسان، فیروزہ کی مگھم جسمانی طلب، کسی تارک الدنیا کا لمحوں میں تاریک الدنیا بن جانا، غرض یہ کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی نا آسودہ رہ جانے والی خواہشات اور مرد کی چوکوں چوراہوں میں بلا تفریقِ جنس اپنی آلودہ فطرت پہ اترانا، ان سب کا اس ناول میں نہایت سلیقے سے اظہار ہوا ہے۔ محمد الیاس کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس ناول میں جنس کے معاملے میں بعض روشن خیالوں کی وجہ سے در آنے والی قباحتوں اور بعض محتاط لوگوں کی لا علمی کی بنا پر پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو ایک ہی وقت میں موضوع بنایا ہے۔ اس میں انھوں نے عیاشی کے نقطۂ نظر سے ملکی سرمایہ باہر لے جانے والے غداروں کی فطرت سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا فوکس اسی بات پہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر طرح کی بھوک اور طلب کے بارے میں سوچا جاتا ہے لیکن جنسی اور جسمانی طلب کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کے بقول شریف بہو بیٹیوں کی نشانی یہ ہے کہ منٹو کے افسانوں کو تیسری چوتھی بار پڑھتے ہوئے بھی ان کے کانوں کی لویں سرخ ہو جاتی ہیں۔ احباب سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے لیے بھی شرافت و نجابت کا سرٹیفکیٹ بس تیار ہی رکھیںکہ ہم نے حال ہی میںایک دھماکہ خیز ناول ’’مَیں تمثال ہوں‘‘ پڑھا ہے اور ہر ہر صفحے پہ ہمارے کانوں کیا ذہن کی لویں بھی ایسے ہی سرخ ہو ہو گئی ہیں، جیسے ملکۂ ترنم نے کہا تھا: مَیں تے ہو ہو گئی قربان وے آج تک ہمیں حسرت ہی رہی کہ کسی معتبر تعلیمی ادارے سے کوئی جگمگاتی، اِٹھلاتی، للچاتی، جوان جذبوں کو گرماتی تحریر موصول ہو۔ یبوست زدہ تنقید، نوٹس آلود تدریسی مقالے اور مکھی مارکہ تحقیق پڑھ پڑھ کے ذوق کے ساتھ ساتھ منھ بھی میری دادی اماں کے بقول ’’پُسّا‘‘ ہو چکا تھا۔ آپ کو زیادہ تجسس میں کیا رکھنا… اصل میں یہ ہمارے اورینٹل کالج کی ہر دل لذیذ استاد ڈاکٹر عارفہ شہزاد کا تازہ ترین کارنامہ ہے، جس میں ان کی ہم زاد مس تمثال کے سات عشقوں کی بدن گداز داستان ہے۔( احباب سے معذرت کہ مجھے ’عشقوں‘کے علاوہ اس لفظ کی جمع نہیں معلوم، کبھی ایک سے زیادہ کیا ہوتا تو پتہ ہوتا!!… ہم نے اپنے طور پر عشوق، عشقان وغیرہ پہ طمع آزمائی کی لیکن مزہ نہیں آیا) مجھے کامل یقین ہے کہ یار لوگ اس ناول کی مصنفہ کو پہلے منھ بھر بھر کے گالیاں دیں گے، واقعات کے پیچھے محدب عدسے کے ساتھ مصنفہ کی ذات اور جذبات کو تلاش کریں گے۔ پھر بے تکلف احباب کو لفظوں، جملوں پہ انگلیاںپھیر پھیر کے چسکا لیں گے، اس کے بعد وہی انگلیاں کانوں کو لگا لیں گے۔ ایسا اس لیے بھی ہونا لازم ہے کہ ڈاکٹر عارفہ کے اس کرارے ناول میں عورت کی مظلومیت سے زیادہ میٹھا سچ اور ’میرا جسم، میری مرضی‘کا کڑوا منظرنامہ غالب ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر مصنفہ اسے قارئین کے لیے گرما گرم ڈش بنانے کی بجائے، نسائی المیہ بنا کے پیش کرتیں تو ایک باکمال منظرنامہ تشکیل دیا جا سکتا تھا!!!