پاکستان پیپلز پارٹی اس لحاظ سے واحد سیاسی جماعت ہے جس کے جیالے اپنی اعلی قیادت پر بھی کھلی تنقید کر جاتے ہیں، صرف ذوالفقار علی بھٹو واحد شخصیت ہیں، جنہیں یہ اپنا سیاسی گرو مانتے ہیں اور انہیں بھٹو صاحب کی ذات میں کبھی کوئی منفی چیز نظر نہیں آتی، یہ جیالے تو شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے بھی بہت ساری باتوں میں اختلاف رکھتے تھے اور آج بھی اس کا اظہار کر دیتے ہیں، یہ قول پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا ہی ہے کہ جس سیاسی جماعت کو آمر ضیاء الحق تھا ختم نہ کر سکا اسے اپنوں نے ہی ختم کر دیا، بہرحال بلاول بھٹو زرداری کے میدان میں آنے کے بعد جیالوں میں عزم و حوصلے کی نئی ترنگ تو جاگی ہے لیکن انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ بلاول بھٹو کے خلاف بھی پارٹی سے اندرونی سازشیں سر نہ اٹھا لیں، بے شک جیالوں کے یہ خدشات بہت حد تک درست بھی ہیں، آج کے کالم کو میں غیر سیاسی رکھنا چاہتا تھا لیکن پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما عزیز الرحمان چن سے موبائل پر میری محض بیس سیکنڈ کی گفتگو مجھے اس موضوع کی جانب کھینچ لائی ہے، مجھے محترم حاجی عزیز الرحمان چن سے مختصر ترین گفتگو کے بعد اپنا مرحوم دوست طارق وحید بٹ بہت یاد آیا، کیونکہ چن صاحب اور بٹ صاحب میں ایک بہت ہی خاص تعلق تھا،، بٹ صاحب کبھی کبھی کہا کرتے تھے کہ ڈرو اس وقت سے جب ہماری پارٹی تنظیم کی کمان،، نو دولتیؤں،، کے ہاتھ میں چلی جائے گی، میں انہیں کہتا، بٹ صاحب! اگر کوئی غریب پیپلز پارٹی کے مرہون منت دولتمند بن جاتا ہے اور پھر وہ پارٹی کا بڑا عہدیدار بھی بن جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ اس طرح تو اچھا ہی ہوگا کہ پارٹی قیادت غریبوں کو مل جائے گی اور یہی بھٹو شہید کا بھی فلسفہ تھا۔۔۔ ،؟ بٹ صاحب فرماتے ،،، کاکا تینوں جنہاں گلاں دا نئیں پتہ او میرے کولوں نہ پچھ۔۔۔۔ کدی کدی جدوں کوئی غریب اپنا طبقاتی کردار بدل لیندا اے تے او سپ بن جاندا اے سپ ٭٭٭٭٭ طارق وحید بٹ ہم سے بہت جلد بچھڑ گیا، وہ جب تک زندہ رہا اپنی پارٹی کے غریب کارکنوں کیلئے چھاؤں بنا رہا، میں نے اسے بڑے بے سہارا کارکنوں کا مددگار پایا،،ضیاء الحق کے دور میں خود معتوب ہونے کے باوجود وہ نچلی سطح پر کارکنوں کا بہت دھیان رکھا کرتا تھا ،وہ خود ایسے سیاسی کارکنوں کی تلاش میں رہتا جو خدا نخواستہ کسی مالی مسائل میں مبتلا ہوں، وہ مرنے سے پہلے اپنے بچوں سے ملنے امریکہ گیا تھا، ایک دن مجھے اس کا فون آیا، اس نے کوئی بات نہیں کی تھی، بس زاروقطار روتا رہا، وہ میرے کسی سوال کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا،روتا رہا، روتا رہا اور جب تھک ہار گیا تو فون بند کر دیا، میں کئی دن تک اس کی اس فون کال پر پریشان رہا، مجھے اس کے سوا کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ وہ دیارغیر میں دوستوں سے اداس ہو گیا ہوگا، پھر کچھ ہی دنوں بعد اس کے وطن واپس آ جانے کی اطلاع ملی، میں سوچ رہا تھا کہ ملاقات کیلئے اس کہ گھر جاؤں گا، مگر اس کی مہلت ملی نہ نوبت آئی، بس اس کے مر جانے کی اندوہناک خبر مل گئی، جنازہ مصری شاہ میں اس کے گھر سے اٹھایا گیا، لوگ ہی لوگ تھے، گریہ زاری تھی، آہ و بکا تھی اور ایک جی دار اور مخلص سیاسی ورکر کی لاش تھی، اس شخص کی لاش جو کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا ، پھر مجھے پتہ چل ہی گیا کہ اس نے صرف رونے کیلئے مجھے کیوں امریکہ سے کال کی تھی؟ وہاں طبی معائنہ میں اسے آخری اسٹیج کا کینسر تشخیص ہوا تھا، اسے بتا دیا گیا تھا کہ اب وہ محض چند دن کا مہمان ہے اور اپنوں سے بچھڑ جانے کی یہ پیشگی اطلاع اس نے کسی بھی اس دوست کو نہیں دی تھی جن سے وہ پیار کرتا تھا ، وہ نہ جانے اکیلے میں کتنی بار اور کتنا رویا ہوگا؟ ٭٭٭٭٭ کبھی کبھی لگتا تھا کہ طارق وحید بٹ جدوجہد کرنے والا اور قربانیاں دینے والا سیاسی ورکر نہیں اسٹیج یا فلم کو کوئی کامیڈین ہے، ایک ایسا کامیڈین جو طنز و مزاح اور جگت بازی میں الہامی باتیں بھی کر جاتا تھا۔ طارق وحید بٹ سے میری ملاقاتیں 1977ء میں اس وقت شروع ہوئیں، جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی جاری تھی، مولویوں کی اس تحریک کو بائیں بازو کے ان کئی سیاستدانوں اور دانشوروں کی حمایت بھی حاصل تھی جو کبھی نماز پڑھتے تھے نہ حلوہ کھاتے تھے، البتہ حلال حرام کی تمیز سے بے بہرہ تھے، ایک وقت وہ بھی آیا کہ طارق وحید بٹ نے بھٹو مخالف قوتوں کو کچھ اس طرح للکارا کہ مسجد شہدا کے باہر موجود ہزاروں افراد کا مشتعل مجمع جس میں مسلح لوگ بھی تھے اس کے گھر (مصری شاہ) کی جانب چل پڑا ، طارق ان دنوں بھٹو صاحب کا چیف گارڈ تھا،وہ مسلح جلوس کے اپنے گھر کی جانب آنے پر ڈرا نہیں تھا۔ ٭٭٭٭٭ مشرف ڈکٹیٹر شپ کے ابتدائی دنوں میں ایک عید پر وہ کسی دوست کی عیادت کرنے مجھے سروسز اسپتال ساتھ لے گیا، عیادت سے فارغ ہو کر ہم اسپتال سے باہر نکلنے والے ہی تھے کہ اس نے کہا منظور وٹو جو کرپشن کے الزام میں گرفتار ہے، بیماری کے بہانے اسی اسپتال میں داخل ہے، چلو اس سے بھی مل لیتے ہیں، ہم دونوں ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے پیپلز پارٹی کے دو لیڈر موجود تھے، حالانکہ منظور وٹوکا اس اس وقت پی پی پی سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہ تھا، طارق وحید بٹ ان دونوں کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں گالی دیتے ہوئے بولا، لو جی، انٹیلی جنس کے دو ایجنٹ یہاں براجمان ہیں، چند سیکنڈ بعد ہی وہ دونوں کرسیاں خالی کرکے باہر نکل گئے، طارق وحید بٹ نے اچانک پینترا بدلا اور منظور وٹو کو انٹیلی جنس اداروں کی من گھڑت رپورٹیں سنانا شروع کر دیں، اس نے منظور وٹو کو انتہائی سنجیدگی سے بتایا کہ تمام ایجنسیوں نے نہ صرف آپ کو کرپشن کے کیسز میں بری کر دیا ہے ، بلکہ خفیہ رپورٹس میں آپ کی ایمانداری اور حب الوطنی کو سراہا بھی گیا ہے، منظور وٹو کا چہرہ دمکنا ، چمکنا شروع ہو گیا، طارق وحید بٹ نے منظور وٹو کو اور بھی کئی کہانیاں سنائیں، اس کے بعد وہ اٹھ گیا، منظور وٹو دوبارہ ملاقات کی یقین دہانیاں لیتے لیتے ہمیں لفٹ تک الودوع کہنے آئے ، گاڑی میں بیٹھ کرطارق وحید بٹ اپنی اداکاری پر بہت ہنسا، اس نے مجھے گھر ڈراپ کیا اور خود کہیں اور گل کھلانے چلا گیا، اس ملاقات کو ایک ہی دن گزرا تھا کہ منظور وٹو کے فون آنا شروع ہوگئے،، سوال ایک ہی ہوتا، آپ لوگ کب دوبارہ اسپتال کا چکر لگائیں گے؟ میں نے طارق وحید بٹ کو کال کی، تم نے مجھے کس مصیبت میں پھنسا دیا ہے، منظور وٹو کے فون پر فون آ رہے ہیں، میں کب تک تمہارے مذاق کی قیمت ادا کرتا رہوں گا؟ جواب میں اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا، میں اٹھتے اٹھتے اسے تمہارا نمبر دے آیا تھا، لیکن طارق وحید بٹ کی موت کے بعد اس کا مذاق حقیقت میں بدل گیا، پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صدر بھی بنے، منظور وٹو کے پی پی پی پنجاب کی صدارت کے منصب پر بٹھانا، پنجاب کے کارکنوں نے گوارا نہ کیا اور صوبے میں تنظیم کی کمزوری کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی، ۔ 11مئی کو 2013 ء کے انتخابی سامنے آئے تھے تو مجھے طارق وحید بٹ بہت یاد آیا تھا اور آج پھر اس کی یاد شدت سے آئی جب میری عزیز الرحمن چنسے فون پر چند سیکنڈ کی گفتگو ہوئی۔۔۔۔ اس گفتگو کے بعد اب میں سوچ رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کو منظور وٹو کی تعیناتی کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے تھی۔