ملتان سے واپسی کا سفر اختتام کے قریب تھا ، کہ داتا دربار حاضری کی سعادت نصیب ہوگئی۔۔۔وہ یوں کہ،گزشتہ بدھ کی شب وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان احمد خان بزدار کے ہمراہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی داتا دربار حاضری کی سعادت پانے کو تھے، ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب ایسی حاضریوں کو اپنے لیے سعادتوں اور برکتوں کا ذریعہ جانتے اور دربار شریف آنے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال لیتے ھیں، کچھ عرصہ قبل بھی ، سخت کرونائی ایام ، یعنی جولائی کے اوائل میں، از خود گاڑی ڈرائیوکرتے ہوئے آئے اور باقاعدہ حاضری دی اور پھر قدموں کی طرف حضرت خواجہ خواجگانؒ کے حجرۂ اعتکاف کے جِلو میں نوافل ادا کرنے کے بعد،مختصر سی قرأت و نعت کی نشست آراستہ کی۔ فنِ تجوید و قرأت کے استاد قاری سید صداقت علی نے تلاوت کے بعد حسبِ موقعہ خواجہ غلام فریدؒ کا پْر سوزکلا م، دردوگداز سے پڑا، توسماں باندھ دیا،ہمارے وزیر موصوف صاحبزادہ سید سعید الحسن شاہ بھی،صاحبِ فن شخصیت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو لحنِ داؤدی سے نوازا ہے… ان سے بھی استفادہ کیا گیا۔ پنجاب کے وزیر ِ قانون محمد بشا رت راجہ،جو ازخود صوفیا سے محبت رکھنے والی شخصیت ہیں، بھی ہمراہ تھے۔ داتا دربار کی خانقاہی روایات و رسومات کو ایک خاص اعزاز اور استحکام میسر ہے،حجرہ خاص کی چوکھٹ مختصر رسم اور دعا کیساتھ، دس بجے شب بند ہو جاتی ہے اور پھر صبح تہجد کے وقت،ایک باقاعدہ رسم کے ساتھ اسے کھولا جاتا ہے،یہ حاضری ،اس وقت ھوئی جب چوکھٹ بند ہو چکی تھی ، لہذا اس عظیم درگاہ کے ’’پروٹوکول ‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے ،جناب وزیر اعلیٰ اور چیئرمین سینٹ نے، مرقد شریف کے حجرے کے باہر ، چوکھٹ پر ہی حاضری کا اعزاز پایا ،ایسی حاضریوں کا اصل مغز بھی یہی ہی کہ: ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں حضرت داتا گنج بخش ؒکا مزار، روزِ اوّل ہی سے شاہانِ وقت کی توجہ کا مرکز رہا، آپؒ کے وصال کے فوراً بعد ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن مسعود بن محمود حاکمِ غزنہ نے حاضری دی اور ابتدائی تعمیر کا اہتمام کیا۔ بلاشبہ وہ غزنویوں کا عہد تھا ، اور ہر کوئی اس ٹائیٹل سے استفادے کا اہتمام کرتا ، لیکن صوفیأ اور صلحأ کامشرب اور مزاج عام لوگوں سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے۔بقول شکیب جلالی: شکیب اپنے تعارف کے لیے اتنا کافی ہے ہم اْس کو چھوڑ دیتے ہیں، جو رستہ عام ہو جائے حضرت داتا صاحب ؒ بلا شبہ غزنی کے محلہ ہجویر کے رہنے والے تھے ، "غزنوی" اس عہد کا یقینا ایک بہت بڑا ٹائیٹل تھا اور بالخصوص لاہور جو کہ اس وقت" غزنہ سلطنت "کا ایک صوبہ تھا ، میں غزنی سے آئی ہوئی کسی ہستی کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے ؟اور بالخصوص وہ ہستی ، جن کو اوائل دور میں ہی ایسا شرف اور علمی اعزاز میسر آیا ہو کہ محمود غزنوی جیسا شخص بھی آپؒ کے علمی کمالات کا معترف۔۔۔ اور اپنے دربار میں ایک بد عقیدہ کی حضرت داتا صاحبؒکے ہاتھوں شکست کا وہ عینی شاہد ہو۔ لیکن آپؒ نے رواج اورروایت ہی کو تبدیل کردیا،خود کو غزنہ سے منسوب کرنے کی بجائے ، اْس چھوٹے سے گمنام محلے "ہجویر" کی نسبت کو اختیار فرماتے ہوئے ، صوفیانہ مزاج اور مشرب کا اظہار فرمادیا، وہ جو اقبال نے کہا تھا : نہیں فقرو سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ نگاہ کی تیغ بازی وہ سپاہ کی تیغ بازی دلوں کی تسخیر کا ایسا اہتمام ہوا کہ ہجویر سے آنے والی اس ہستی نے، نہ صرف لاہور بلکہ اس پورے خطّے کی کایا پلٹ دی اور لاہور آپؒسے، اور آپؒ لاہور سے منسوب ہوگئے، اور پھر یہ "داتا کی نگری " بن گیا اور پھر اقبال نے تویہ کہہ کر قلم توڑدیا : خاکِ پنجاب ازدمِ اْو زندہ گشت صبحِ ما از مِہر اْو تابندہ گشت یعنی آپؒ کے دم قدم سے سر زمین پنجاب یعنی پاکستان کو نئی زندگی ملی، بزدار صاحب کی آمد سے مجھے ماضی کے وہ حکمران بھی یاد آئے ، جو کہا کرتے تھے کہ میں "بیٹری چارج کروانے جاتا ہوںـ"یہ بات تو انہوں نے حرمین شریفین کے لیے کہی تھی ، لیکن عامتہ الناس اس حقیقت سے بہت زیادہ شایدواقف نہ ہوں کہ موصوف صدر جنر ل ضیاالحق، داتا دربار بہت کثرت سے حاضر ی دیتے تھے ، وہ بھی بغیر کسی پروٹوکول کے۔ ان کی ہدایت یہ تھی کہ دربار شریف کا محض ایک عام اہلکار، ان کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور ہو، رات کے پچھلے پہر آتے ، نوافل اور قرآن خوانی کیلئے دربارشریف کے سرہانے کی سِمت، اس دور موجود"قرآن محل" میں قیام کرتے، دربار شریف پہ سلام پیش کرتے۔ سردیوں میں بالعموم سکارف/مفلر ،جس سے چہرہ قدرے چھپ سکے ، تاکہ لوگوں سے بچا جاسکے ، استعمال کرتے ،دربار شریف کے پرانے زائرین جانتے ہیں کہ مرقدشریف کے حجرے کی ڈیوٹی کا اعزاز پانے والے بابا شوکت حسین ، جو چند سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے ، کی صدر ضیا الحق سے بڑی دوستی تھی ، جب بابا شوکت نومبر1982 کو سروس سے ریٹائرڈ ہوئے تو صدر ضیا الحق کے خصوصی احکام سے وہ داتا دربار کی اس خدمت پر تاحیات مامور رہے۔ دربار شریف کی موجودہ عظیم الشان مسجد کی کشادگی "Initiative" اگرچہ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت لیا ، جب وہ24 دسمبر1974ء کو ، ایران سے آئے ہوئے "سونے کے دروازے " کے افتتاح کے لیے داتا دربار آئے۔اس وقت دربار شریف اور مسجد کا یہ ایریا بمشکل چھ کنال سے کچھ زائد تھا ، بھٹو صاحب نے موقع پر ہی پنجاب کے ایک افسرِ اعلیٰ ، بی اے قریشی (آئی سی ایس )کو حکم دیا کہ وہ دربار شریف کی توسیع کامعاملہ لیکر وزیر اعظم ہاوس آئیں، چنانچہ فوری طور پر پر اجیکٹ آفیسر طلب ہوا ، ڈرائنگ بنی، جگہ محدود تھی، وزیر اعظم صاحب کوتوسیع کانقشہ پسند نہ آیا ، انہوں نے اپنے روایتی جلال میں، شایانِ شان توسیع کے احکام فرمائے۔ جگہ کے حصول "Land Acquisition" کے حوالے سے کارروائیوں پر غور و خوض شروع ہوا،بظاہر لگتا تھا کہ زمین کے حصول میں دِقت نہ ہوگی ، مگر غیر متوقع ردِّ عمل سامنے آیا۔ مالکان، زمین فروخت کرنے کیلئے آمادہ نہ تھے، اِدھر بھٹو صاحب کی زندگی اور اقتدارنے وفانہ کی۔ چنانچہ صدرِ پاکستان جنرل ضیا الحق ’’داتا دربار تعمیر مسجد‘‘ کے امور کی براہِ راست سر پرستی کرتے رہے ، انہوں نے 26 اکتوبر 1978 کو مسجد کے ڈیزائن کے حتمی انتخاب کے موقع پر ہدایات جاری کیں کہ داتا دربار سے ملحقہ تعمیر ہونے والی مسجد کا ڈیزائن اپنے تناسب ، شباہت اور تاریخی تناظر میں مقامی فنِ تعمیر ،آب و ہوا اور یہاں کی جمالیاتی ومقامی ضرورتوں اور بنیادی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ مسجد کو وسعت و کشادگی میں بادشاہی مسجد جیسا ، جمالیاتی اعتبار سے شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ جیسا اور اندرونی تزئین و آرائش کے لحاظ سے مسجد وزیر خان جیسا ہونا چاہیے ، انہوں نے اس اجلاس میں یہ بھی اعلان کیا کہ 26 اکتوبر 1978ء سے مسجد کی تکمیل تک ، داتا دربار کی ، تمام آمدن ،مسجد کی تعمیر و تکمیل پر خرچ ہوگی۔ نذرانہ جات ٹیکس سے مستثنیٰ ہونگے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ’’صد ر پاکستان مسجد کے متولی ـ"Custodian" اور گورنر پنجاب نائب متولی "Deputy Custodian" ہونگیـ۔ـ"