سانحہ مری محض قدرتی حادثہ تھا‘نااہلی اور غفلت کا شاخسانہ یا بے حسّی کا مظہر؟جتنے منہ اتنی باتیں‘مگر میری ناقص رائے میں پنجاب کے صحت افزا مقام مری کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کی مجرمانہ نااہلی‘صوبائی حکومت کی روائتی غفلت اور سہل پسندی‘قومی و صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بے حسّی نے حادثے کو جنم دیا۔ تئیس قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں‘افسوس ناک بلکہ شرمناک پہلو مگر یہ ہے کہ تئیس معصوم شہریوں کی شہادت پر حکمران ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے تاویلیں گھڑ رہے ہیں ۔ ؎ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں‘حادثہ دیکھ کر مری میں برفباری کا نظارہ کرنے لوگ ہر سال جاتے ہیں‘عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاحت کے فروغ پر توجہ دی اور عوام کو بیرون ملک جانے کے بجائے اپنے ملک کے صحت افزا مقامات کا رخ کرنے پر اکسایا‘اعلان ہوا کہ سیاحوں کو معیاری سہولتیں فراہم کی جائیں گی‘خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف سیاحتی مقامات پر واقع سرکاری عمارتوں کو بھی ٹورسٹ ریز ورٹس میں تبدیل کرنے کا حکم صادر ہوا‘عمران خان کے وعدوں اور دعوئوں پر اعتبار کرنے والے شائقین اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے کہ مری میں بھی آمدو رفت کے لئے معیاری پارکنگ ‘قیام و طعام اور سیرو تفریح کی سہولتیں دستیاب ہیں‘کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان کی خواہشات‘توقعات اور اعلانات اپنی جگہ مگر پنجاب کپتان نے مٹی کے مادھو کے سپرد کر رکھا ہے جس نے موسم سرما اور برفباری شروع ہونے سے قبل مری میں سیاحتی سہولتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی نہ دوسال کے عرصہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑک کی مرمت پر توجہ دی اور نہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق ناسازگار موسم سے نمٹنے کے لئے احکامات جاری کئے۔ میں نے بعض سرکاری افسروں سے معلوم کیا کہ چودھری پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف کے دور میں گرمائی اور سرمائی سیزن کے دوران سیاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے‘ٹریفک جام سے بچنے اور ممکنہ حادثات کی روک تھام کے لئے کچھ غیر معمولی انتظامات کئے جاتے تھے یا آج کل کی طرح اللہ کے آسرے پر کام چلتا تھا؟جواب ملا کہ ہر سال اپریل اور دسمبر میں صوبائی‘ڈویژنل اور ضلعی سطح پر اجلاس ہوتے‘SOPsکاازسر نو جائزہ لیا جاتا اور عملدرآمد کے لئے احکامات جاری ہوتے۔ گزشتہ دو تین سال سے مگر SOPsکی کسی نے گرد جھاڑی نہ سڑکیں صاف کرنے والی مشینری کا زنگ اتارنے کی ضرورت محسوس کی‘سب خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے ۔ویسے بھی جہاں سرکاری افسر سمسٹر سسٹم کے تحت ہر چھ ماہ کے لئے تعینات ہوتے اور راتوں رات کوئی وجہ بتلائے بغیر ادھر سے اُدھر تبدیل کئے جاتے ہوں وہاں کسی کو یہ سوچنے کا دماغ کہاں کہ مقررہ تعداد سے زیادہ سیاحوں اور لاکھوں گاڑیوں کا داخلہ ‘پارکنگ کے ناکافی انتظامات‘ کم رہائشی سہولتیں اور ہوٹلوں کے من مانے کرائے مری میں انسانی المیّے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں؟۔ موجودہ حکمرانوں کا ایک المیّہ یہ بھی ہے کہ عوامی رابطے اور ٹھوس اقدامات سے زیادہ ٹویٹر‘فیس بک اور سوشل میڈیا تک رسائی کو اپنی کامیابی اور ٹویٹ یا فیس بک میسج کے بعد یہ اپنے آپ کو ہر طرح کی ذمہ داریوں سے مبرا سمجھتے ہیں۔ بعض وفاقی وزراء نے ٹویٹس اور ویڈیو پیغام جاری کرنے کے بعد یہ فرض کر لیا کہ اب برفباری دیکھنے کے شوقین عوام جانیں اور برفانی طوفان اور سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی قیامت خیز ہوائیں‘ہمارا ذمہ توش پوش۔حکمران اب بڑی معصومیت سے یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ آخر شائقین نے محکمہ موسمیات اور سرکاری محکموں کی وارننگ پر کان کیوں نہیں دھرا؟اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے آپ سے جواب مانگنے کے لئے کوئی تیار نہیں کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ پر کان دھرنا کیا فقط باشعورعوام کی ذمہ داری تھی یا حفاظتی انتظامات کرنا اور شتر بے مہارہجوم کو روکنا صوبائی حکومت ‘انتظامی مشینری‘نیشنل و پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا بھی فرض تھا‘اگر سب کچھ عوام نے کرنا ہے تو اربوں روپے تنخواہ‘مراعات اور دیگر سہولتوں کی صورت میں ہڑپ کرنے والے ریاستی ادارے کس لئے ہیں ۔یہ جو اسلام آباد‘لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ میں مہنگے محلات میں ’’کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے‘‘ کچھ چپڑ قناتیے براجمان قوم کے خون پسینے کی کمائی اپنے اللوں تللوں پر اڑا رہے ہیں کس مرض کی دوا ہیں؟مری میں کئی منزلہ عمارتوں کی غیر قانونی تعمیر کو روکنا‘پارکنگ پلازوں کا اہتمام‘ہوٹلوں کے ہوشربا کرایوں اور اشیا خورو نوش کے نرخوں کو کنٹرول کرنا بھی کسی کا دردسر ہے یا کار حکمرانی محض وارننگ جاری کرنا اور سوشل میڈیا پر پیغامات سے جی بہلانا ہے۔ جنوبی کوریا میں کشتی کے المناک حادثے پر لواحقین نے احتجاج کیا تو وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا‘2014ء میں عمران خان اپنی تقریروں میں کوریا کے وزیر اعظم کی مثال دے کر میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا کرتے تھے‘مگر اب عثمان بزدار سے استعفیٰ لینے یابرخاست کرنے کے بجائے تئیس اموات کا ملبہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کو خاطر میں نہ لانے والے سیاحوں پر ڈال رہے ہیں‘سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ گاڑیوں کے مری میں داخلے کے بعد اگر صوبائی حکومت‘ پولیس اور مقامی انتظامیہ کی بے بسی و ناکامی کا احساس کرتے ہوئے فوج ‘رینجرز ‘راولپنڈی ڈویژن کی پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کو طلب کر لیتی‘سرکاری عمارتوں کے دروازے سیاحوں کے لئے کھول دیتی‘برفباری شروع ہوتے ہی ٹریکٹر اور کرینیں برف ہٹانے میں لگ جاتے اور ہوٹلوں کواوور چارجنگ سے روک دیا جاتا تو پھر بھی تئیس جانیں ضائع ہوتیں؟ہزاروں خاندان بھوک‘پیاس‘ بے بسی اور خوف کا شکار ہوتے‘اے ایس آئی نوید اقبال اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک امداد کے لئے دہائی دیتا رہا‘پولیس اور ریسکیو کا کوئی اہلکار مدد کے لئے نہ پہنچا ۔کم از کم اس ایک خاندان کی ہلاکت کو اتفاقی حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے نہ اس کی ذاتی غلطی کا شاخسانہ‘دور دراز سے دو چار اہلکار پیدل بھی نکل پڑتے تو چار چھ گھنٹے میں بآسانی پہنچ کر سات افراد کی زندگی بچا سکتے تھے مگر حیلہ جو اور بہانہ ساز حکومت اور انتظامیہ اپنے آپ میں مگن رہی۔ چند سال پیشتر ناروے کے شہر بڈو(Bodo)کے ایک ہسپتال میں بوڑھا مریض لایا گیا‘پتہ چلا کہ اس کے دل اور پھیپھڑوں کی حرکت برقرار رکھنے کے لئے درکار مشین ای سی ایم او پانچ سو کلو میٹر دور برنڈ ہیم کے ایک ہسپتال میں موجود ہے جسے گاڑی سے منگوانے میں اندازاً آٹھ سے دس گھنٹے لگ سکتے ہیں‘اندیشہ ہے کہ ’’تاتریاق از عراق آوردہ شود‘مارگزیدہ مردشود‘‘ کے مصداق جب تک مشین پہنچے گی مریض اگلے جہاں سدھار جائے گا‘ڈاکٹرز نے ایئر فورس سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ لیفٹیننٹ کرنل بورج گف کلیپ سے درخواست کی گئی کہ وہ یہ مشین جنگی جہاز کے ذریعے منگوا دیں۔ ناروے کی ایئر فورس نے دو ایف سولہ طیارے مشقوں میں مصروف پائے ایک جہاز کے پائلٹ سے کہا گیا کہ وہ جنگی مشقیں چھوڑ کر ایئر بیس آئے اور متعلقہ مشین مع سازو سامان لے کر بڈو پہنچے‘ایمرجنسی کی بنیاد پر پائلٹ کو پینتیس منٹ کا سفر پچیس منٹ میں طے کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی‘بعدازاں کرنل کلیپ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’ ایک بوڑھے کی جان بچنے پر میں خوش ہوں کہ ایئر فورس نے اپنا حصہ ڈالا‘‘مہذب معاشروں میں ایک انسان کی جان قیمتی ہوتی ہے پاکستان میں جان مگر صرف حکمرانوں کی انمول ہے یا ان کے ہم پلّہ مالدار‘طاقتور اور بارسوخ اشرافیہ کی‘عمران خان ریاست مدینہ کے علمبردار ہیں‘ریاست مدینہ کے حکمران حضرت عمر ؓ کا قول اکثر دہرایا کرتے ہیں کہ دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو وہ عوام اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں یہاں مری میں تئیس جیتے جاگتے انسان جن میں معصوم بچے تک شامل ہیں‘اٹھارہ بیس گھٹے تک ’’المدد‘‘ ’’المدد‘‘ ‘ ’’الاماں‘‘ ’’الاماں‘‘پکارتے جاں بحق ہو گئے مگر وزیر اعظم‘وزیر اعلیٰ ‘مری اور پنجاب کی انتظامیہ سمیت کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘انتظامیہ کی نااہلی عیاں ہے مگر تحقیقات بھی انہی کے بھائی بند انتظامی افسران کریں گے‘سرائیکی میں کہتے ہیں چور دابھرا گنڈھ کپ (چور کا بھائی جیب کترا) تحقیقات کے نتیجے میں عوام اور تئیس مقتولوں کے لواحقین کو چند ٹوئٹس پڑھنے کو ملیں گی یا ویڈیو پیغامات ؎ کہیں نہیں ہے‘کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشان نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا