کئی عالمی اداروں کی رپورٹس اس امر پرگواہ ہیںکہ ہزاروںکشمیری مسلمانوں کو جعلی ، جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات میںبرسہابرس تک جیلوں میں رکھا جاتا ہے ۔ جب یہ سطور حوالہ قلم کررہاہوںتواس وقت بھی ہزارو ں کشمیری مختلف بھارتی جیلوں اورعقوبت خانوں میں بند ہیں اور انہیں مدتوں تک عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جا رہا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کئی بارکہہ چکی ہیںکہ بھارت غیر قانونی طور پربھارتی قیدخانوں میں پڑے تمام کشمیریوں کی رہائی ممکن بنائے لیکن ان کی رپورٹس صدابصحراثابت ہوتی رہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے قیدبے جرمی کے ایک تازہ ترین واقعے میںعلی محمدبٹ، مرزا نثار اور لطیف وازہ کو 1996ء میں نئی دہلی کے لاجپت نگر اور سروجنی نگر میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں نیپال سے گرفتار کیا گیا۔جے پور کی ایک عدالت نے 24جولائی 2019ء بروزبدھ کو ان کے خلاف لگے الزامات سے متعلق حکومت کے دلائل کو ناکافی قرار دے کر تینوں کو بے قصور قرار دے کر 24برس اذیت خانوں میں جھیلنے کے بعدان کی رہائی کا حکم دیا۔چارج شیٹ میں ان پریہ الزام عائدکیاگیا کہ لاجپت نگراور سروجنی نگر دہلی میں جوبم حملے ہوئے ان میں جو گاڑی استعمال ہوئی اس کا ڈرائیور سری نگرسے تعلق رکھنے والاعلی محمدبٹ تھا لیکن علی محمد علی بٹ کو 1996ء میں نیپال سے گرفتار کیا گیا تھا۔چونکہ ان دنوں کشمیر میںمجاہدین کی کارروائیاں عروج پر تھیں، انڈیاکے خفیہ اداروں نے1990ء سے آج تک ہمیشہ بھارت اورنیپال میں تجارت یا تعلیم کے لیے مقیم کشمیریوں کوشک کے دائرے میں رکھا۔اس لئے انڈین فورسز نے نیپال میں نہ صرف علی بٹ بلکہ سرینگر کے لطیف وازہ اور مرزا نثار حسین کو بھی گرفتار کیا تھا۔علی بٹ اور مرزا نثار کی عمریں 20 سال جبکہ لطیف وازہ 17 سال کے تھے۔ تینوں سرینگر کے ان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کشمیری دستکاریوں کا کاروبار گذشتہ تین نسلوں سے کرتے رہے ہیں۔نیپال چونکہ دستکاریوں کی فروخت کے لیے ایشیا کا قریبی مرکز ہے، کشمیری طویل مدت سے نیپال میں اپنی دستکاریاں فروخت کرتے رہے ہیں۔تینوں کشمیری نوجوان جیلوں اورعقوبت خانوں میں اپنی زندگی کا حسین دورکھوکر24 سال کی قید کے بعدرہاہوئے ۔ تینوں کو جے پور کی ہائی کورٹ نے ٹھوس شواہد نہ ملنے پر بے قصور قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اب تینوں گھر لوٹے ہیں لیکن تینوں کی دنیا بدل چکی ہے۔ 49 سالہ محمد علی بٹ پرانے سرینگر کے خانقاہ معلی علاقے میں شمس واری محلے کے رہائشی ہیں اورایک آسودہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 1980 ء کی دہائی میں ہی کشمیری دستکاریوں بالخصوص قالین کی مانگ دنیا بھر میں بڑھ گئی تھی۔ وہ ہر سال رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر تعلق داروں کے لیے دعوت کا اہتمام کرتے تھے، اس دعوت پر ایک لاکھ روپے کا خرچ ہوتا تھا لیکن پھر علی کی گرفتاری نے سب ختم کر دیا۔ والد انتقال کر گئے، کاروبار متاثر ہو گیا، خود جیل اور وکیلوں کے چکر میں آ گئے۔ اب علی رہا ہو گیا ہے لیکن اب وہ بات نہیں،وہ خوشحالی سے بدحالی میں آ گئے ہیں۔کم سنی اور جوانی جیل میں گزارنے کے بعد جب سرینگر کے رہائشی محمد علی بٹ گھر پہنچے تو وہ اپنے والدین کی قبروں کی زیارت کے لیے گئے۔ علی محمد بٹ جب نیپال سے گرفتار ہوئے تو ان کی عمر 25 سال تھی۔ ان کی گرفتاری کے دوران اس کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے ۔ رہائی پر پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ والدین کی قبروں پر حاضری دی۔والدین کے علاوہ کئی رشتہ داروں کی موت ہو چکی ہے اور واپسی پر علی اپنی آزادی کا جشن کم اور اپنوں کی جدائی کا غم زیادہ محسوس کر رہا ہے۔ 44 سالہ لطیف وازہ بھی علی کے ہی پڑوس میں سرینگر کے فتح کدل میں رہتے ہیں۔ لطیف گرفتار ہوئے تو والد انتقال کر گئے۔ گھر میں بہن تھی، جن کی کفالت کی ذمہ داری اس کے بھائی طارق کے کندھوںپر تھی۔وہ ہر ماہ دلی، جے پور اور گجرات کی عدالتوں میں حاضری، بہن کی ذمہ داری، ماں کا خیال اور اپنی پڑھائی کن مشکلات میں کررہاتھا ۔لطیف قیدبے جرمی سے رہا ہو گئے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ 24 سال کی قید کے بعد کسی کو بے قصور پا کر رہا کرنے کا مطلب واقعی انصاف ہے۔40 سالہ مرزا نثار حسین مرزا کو جب نیپال سے گرفتار کیا گیا تو اس وقت ان کی عمر 16 برس تھی۔ مرزا کو جیل میں 14 سال ہو چکے تھے۔ پہلی مرتبہ ان کی ماں ملاقات کے لیے تہاڑ جیل آئیں۔ ملاقات سلاخوں کی اوٹ سے کراتی جاتی تھی۔ 15 منٹ تک دونوں طرف آنسو بہتے رہے۔ جیل حکام کو سمجھ آیا، گیٹ کھولا گیا اور ماں بیٹا گلے ملے، اس دن کوئی بات نہیں ہوئی۔اس سے قبل سری نگرسے تعلق رکھنے والے رفیق احمد شاہ اور محمد حسین فاضلی کو گیارہ برس کی بے جرمی نظر بندی کے بعد نئی دلی کی تہاڑ جیل سے حال میں رہا کیا گیا توانہوں نے بھی اس سوال کواٹھایاکہ ہمیں بتایاجائے کہ ہمارے گیارہ برسوں کی بلاجواز قیدکی صعوبتوں کاذمہ دارکون ہے۔ بدنام زمانہ گوانتاناموبے اورابو غریب میں قیدیوں سے توہین آمیز سلوک اور ان پر انسانیت سوز اوردل ہلادینے والے تشدّدکے واقعات تومنظرعام پر آئے اور ان پر نقد بھی کیا گیا لیکن ریاست کے جموںریجن اوراس سے پرے بھارت تک ایسے تعذیب خانے، ٹارچرسیلز، انٹروگیشن سنٹرزاور جیلیںموجود ہیں جن کی اندرون کہانی کبھی منظرعام پرنہیں آئی اور جو گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل سے ہرگزمختلف نہیں۔ بے شمار لوگ ہیںکہ جنہیں بلاوجہ اورراہ چلتے بھارتی فوجیوں نے گرفتار کیا،انٹروگیشن سنٹرز میں پہنچایا اورپھر مشقِ ستم بنادیا گیا ان کے خلاف فرضی طور پرمقدمات دائر کئے گئے اور پسِ دیوارِ زندان دھکیل دیا گیا۔ وہ اپنے خلاف جھوٹے مقدمات کاسامنا کررہے ہیں۔وہ یہ کہتے ہوئے اب تھک چکے ہیں کہ انہیں ان کہانیوں اورداستانوں کا علم تک نہیں ہے جوان کے ساتھ نتھی کردی گئیں اور جس کی بنیاد پر انہیں سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا۔یہ لوگ جو جموں اوربھارت کے مختلف عقوبت خانوں میں پڑے ہوئے ہیں اور جنہیں ہر روز بھارتی جبر و قہر کا سامنا ہے اس بات پر حیران ہیں کہ دنیا کے نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن انکی طرف ایک نگاہ کیوں نہیںڈال رہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اورامر واقع یہ ہے کہ جیلوں کی حالت بدترین اور ناقابلِ بیان ہے۔مختلف بہانوں کی آڑ میں قیدیوں پر بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے اور انہیں ستایا جارہا ہے۔