جی سی یونیورسٹی کے ایم بی 20 میں ’’اِنگلش پوئیٹری‘‘ کی کلاس جاری تھی۔ جان ڈن (John Donne) کا ادبی کام زیر غور تھا۔ اس کی ایک معروف نظم No Man is an Island زیر بحث آئی، تو انسانی فطرت کے کئی رموز سمجھنے کو میسر آئے۔ اگر چہ یہ نظم پہلے بھی پڑھ رکھی تھی،لیکن یہاں اسے ایک مختلف زاویہ سے دیکھنے کا موقع کلاس ڈسکشن کی صورت میں سامنے ملا۔ اس نظم کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جزیرہ کی مانند نہیں ، اور نہ ہوسکتا ہے۔ گویا ’’self sufficiency‘‘ انسان کے لیے ممکن نہیں۔ کسی نہ کسی طور ، کوئی نہ کوئی، ایسا ضرور ہوتا ہے ، جس پر انسان منحصر ہو۔ خواہ معاشرتی طور پر ہو،جذباتی طور پر یا روحانی طور، کوئی ایک انسان دوسرے انسان پر انحصارکیے بغیر نہیں جی سکتا۔ گفتگو اسی موضوع پر جاری تھی۔ یک دم اقبالؒ یاد آگئے۔ کہتے ہیں: فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ بھی نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ بھی نہیں اب یہ شعر اقبالؒ نے جان ڈَن سے متاثر ہو کر کہا ۔۔۔۔۔۔واللہ ُ اعلم۔ انسان کو’’سوشل اینیمل‘‘ ماناجارہا ہے۔ انسان کی سرشت میں شامل ہے، کہ وہ مختلف قبائل ، قوموں اور ٹولیوں کی شکل میں بٹ کر جیتا ہے۔ اس کی وجہ تفریق نہیں بلکہ انسان کی وابستگی ہے جو مختلف محرکات کے پیش نظر انسانوں کو گروہوں میں تقسیم کرتی آئی ہے۔ کچھ کے لیے یہ کنکشز خوشی اور مسرت کا باعث بنتے ہیں، البتہ کچھ کے لیے فقط تکلیف اور اذیت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ماہرِ حیاتیات کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے ذہن کا سب سے اہم کام سوچنا نہیں بلکہ ہمارے اعضائ، ہمارے ہارمونز اور ہماری قوت ِ مدافعت کو متوازن یعنی بیلینسڈ رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو دیکھتے ہی آپ مسرت اور طمانیت کے احساس سے فوراََ لبریز ہو جاتے ہیں کیوں کہ آپ کا دماغ آپ کے ان لوگوں سے (یا کسی خاص شخص سے)وابستگی کی بدولت آپ کے وجود میں ہونے والے کیمیکل چینجز کو بیلنس کر رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر آپ کچھ مخصوص لوگوں کو دیکھ کر بیزار یا چڑچڑا پن بھی محسوس کرتے ہیں۔ بدھ مت عقیدہ ہے کہ انسانی فطرت گل لالہ کی طرح ہے۔ گل لالہ اپنا رنگ اپنے ارد گرد کے ماحول کی مناسبت سے بدلتی ہے۔ اس کا رنگ روشنی کی شدت اور روپ فضا میں نمی کے تناسب کے بدلنے کے ساتھ مختلف ہوجاتا ہے۔ حتی کہ اگر آپ اسے کسی ایسی جگہ پر لگا دیں جہاں اس کی طبیعت اور ساخت کے برعکس پودے یا پھل پائے جاتے ہوں تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے سوکھی گھاس میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کچھ یہی حال انسانی فطرت کا بھی ہے۔ آپ کی شناخت کا بہت گہرا تعلق آپ کے ارد گرد کے ماحول اور ان لوگوں سے ہے جو آپ کے آس پاس موجود ہوں۔ مطابقت نہ ہو، تو آپ کب سوکھی ہوئی گھاس کی مانند ہوجائیں، پتہ بھی نہیں چلتا۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ صحت مند تعلق نہ ہو نے کی وجہ سے جس تنہائی سے انسان دوچار ہوتا ہے،وہ تنہائی جلد موت کا سبب بنتی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق وہ لوگ جن کا رجحان تنہائی کی جانب رہا ہو، اگلے سات سالوں میں ان کی موت واقع ہونے کی شرح ۳۰ فیصد سے زیادہ رہتی ہے۔ یہ شرح کسی بیماری کے مرنے کی شرح سے بھی کہیںزیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تنہائی کے سبب آپ کا دماغ اپنی بیشتر قوت آپ کے اندر کیمیکل بیلنس قائم کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ یہ اندرونی کمی آپ کے ذہن کو، آپ کو ایک مریض کے طور پر برتنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بعد ازاں ، بقول ماہرِ حیاتیات ، یہی سب شوگر، دل کی بیماریوں اور کینسر جیسی مرض کی وجہ بنتی ہے۔ مارکَس کہتا ہے "You can't be self by yourself"۔اُ س کا یہ جملہ پڑھتے ہی مجھے بابا بلھے شاہؒ یاد آجاتے ہیں۔ آپؒ لکھتے ہیں: شاہ عنایتؒ بھیت بتائے تاں کھلے سب اسرار آپ دنیا کے جس بڑے انسان کی زندگی پڑھ لیں۔ آپ کو اس شخصیت کے اندرکوئی آواز ایسی ضرور سنائی دے گی جو بارہا، ہر معاملہ میں، ہر قدم پر، یہ فیصلہ کرنا سکھا رہی ہوگی کہ آیا کہاں وہ اور اس کا اصل اس کے سامنے ہے اور کہاں وہ ۔۔۔وہ بننے جا رہاہے جو ناکارہ ہوجانے کے مترادف ہے ۔وہ پکار اسے یہ کہنا سکھا دیتی ہے کہ کہاں ، کن میں اور کس کام میں اسے اطمنان ہے اور کہاں نہیں۔ کہاں انسان ایک خوبصورت پھول کی مانند خوشبوئوں کا مرکز رہتا ہے اور کن میں بے معانی ہستی میںتبدیل ہوجاتا ہے، یہ بھید بتانے والی اس کے اپنے اند ر یا اس کے ساتھ موجود ایک آواز ضرور ہوتی ہے۔ بس ہم میں اور ان قد آور لوگوں میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کی اس آواز کو بیدار کرلیتے ہیں، جو انہیںاس درس پر عمل کرنا سیکھا دیتی ہے کہ: ’’تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن!‘‘ جس طرح ہر گل لالہ کے رنگ اور ترنگ کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے، ویسے ہی ہر انسان کی دماغی اورقلبی وضع قطع کے پیچھے بھی کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہوتا ہے۔ انسانی فطرت ہے، اسے زندگی گزارنے کے لیے لوگ چاہیے۔ پر زندگی جینے کے لیے مخصوص لوگ درکار ہوتے ہیں، جن کے ساتھ مضبوط وابستگی آپ کے لیے وہ سامان مہیا کرتی ہے، جوخزاں رت میںبہار کی مانند ہو۔ ویسے (خوش طبعی کے لیے) ساحر لدھیانوی کو کسی کی یاد آتی ہے تو کہتا ہے: ـزندگی تری زلفوں کی نرم چھائوں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی شاداب ہوتی ۔۔۔۔ اس بارے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ البتہ اس شعر میں یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ شاعر کو ایک ’’خوش فہمی‘‘ لاحق ہے، اور وہ یہ کہ وہ زندگی بہتر جی سکتا تھا اگر۔۔۔۔ خیر باقی واللہ اعلم۔