وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے رہنمائوں اور امریکی کانگرس کے اراکین سے ملاقاتوں میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وزیر اعظم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل‘ امریکی معاون خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور دیگر اہم شخصیات کو بتایا کہ آر ایس ایس کے غنڈے مقبوضہ کشمیر میں مقامی کشمیریوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بی جے پی کی حکومت موجود ہے بھارت میں انتہا پسندی میں اضافہ ہو گا۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نے چاپلوسی کی آخری حد کو چھوتے ہوئے ہیوسٹن میں بھارتی تارکین کے جلسہ میں ایک بار پھر نام لئے بغیر پاکستان کو دہشت گردی کا عالمی مرکز قرار دیا۔ اس جلسے میں صدر ٹرمپ کو مدعو کر کے مودی نے بیک وقت کئی نشانے لگانے کی کوشش کی مگر جلسہ گاہ کے باہر مودی کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں کشمیری اور سکھ اپنی آواز دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تنازع کشمیر کو پہلے دن سے اپنی ترجیحات میں رکھا ہے۔ قبل ازیں تنازع کے حل کے لئے پاکستان مذاکرات پر اصرارکرتا رہا ہے۔ مسلح مزاحمت کی حمایت سمیت کئی نکات پاکستان کے زیر غور رہے ہیں۔ ان تدابیر کا نتیجہ کبھی حوصلہ افزا نکلا نہ عالمی رائے عامہ کشمیریوں کے لئے درد مندی کا مظاہرہ کر پائی۔ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کے ہر قابل ذکر پلیٹ فارم پر کشمیریوں کی حالت پر بات کی۔ بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کو آگاہ کیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم بھارتی سفیر کو امریکی ذرائع ابلاغ کی کشمیر پر رپورٹنگ جانبدارانہ دکھائی دینے لگی ہے۔ امریکہ میں بھارتی تارکین کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ لوگ سماجی اور سیاسی طور پر پاکستانیوں سے طاقتور ہیں مگر معاشرے کی مجموعی صورت جن خیرکے خیالات سے تشکیل پاتی ہے ان میں مقبوضہ کشمیر کو اہمیت مل رہی ہے۔ یہ امر کامیابی کے مترادف ہے کہ صدر ٹرمپ سے لے کر اراکین کانگرس تک کشمیر کو متنازع مانتے ہیں اور بھارتی فوج سے مظالم بند کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کے 5اگست کے غیر آئینی ‘غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیری انسانی تاریخ کی بدترین بربریت اور سفاکیت کا سامنا کر رہے ہیں۔50روز کا بدترین کرفیو کشمیریوں کے جذبہ حریت کو نہیں دبا سکا ۔ہر روز ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مختلف علاقوں میں کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں تو بھارتی فوج نہتے شہریوں پر پیلٹ گنز کا ظالمانہ استعمال کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے بھارتی فوج کی انسانی حقوق کی پامالیوں پر نہ صرف گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ انسانی المیہ کے جنم لینے کے خدشات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان روز اول سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ہر فورم پر حمایت کے عزم کا نہ صرف اظہار کر چکا ہے بلکہ پاکستان کی سفارتی کوششوں اور وزیر اعظم کے عالمی رہنمائوں سے ٹیلی فونک رابطوں کا ہی ثمر ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر تشویش کا اظہار اور کشمیر میں انسانی حقوق ذرائع ابلاغ کی بحالی اور فوری طور پر کرفیو کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی بھارت سے کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے کشمیر کے معاملہ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کو مشن کشمیر کا نام دیا ہے۔ وزیر اعظم اپنے جنرل اسمبلی میں خطاب میں مسئلہ کشمیر کو بھر پور انداز میں اجاگر اور اقوام عالم کو کشمیر کی گھمبیر صورتحال سے آگاہ کریں گے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم امریکی کانگریس کے ارکان سے بھی اپنی ملاقاتوںمیں مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکہ کے کردار ادا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز کشمیر سٹڈی گروپ کے بانی فاروق کٹھواری سے کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور فاروق کتھواری پر زور دیا کہ وہ اپنے فورم کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کریں تاکہ عالمی برادری کے سامنے نریندر مودی کا بھیانک چہرہ بے نقاب ہو سکے۔ وزیر اعظم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کومی نائڈر سے ملاقات میں بھی کشمیریوں کی نسل کشی رکوانے کے لئے کردار ادا کرنے کا کہا۔ یہ پاکستان کی سفارتی کوششوں اور وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ٹرمپ عمران خان سے ملاقات سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے نہ صرف ملاقات کرچکے ہیں بلکہ ان کے ساتھ بھارتی کمیونٹی کے جلسے میں بھی شریک تھے ۔یقینا وزیر اعظم کی ملاقات مودی کے اثرات بد کو زائل کرنے میں اہم ہوگی، وزیر اعظم امریکی ارکان کانگریس سے ملاقاتوںمیں امریکہ کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یقینا ان ملاقاتوں کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوں گے مگر جیسا کہ وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک طویل جنگ ہے اور اس کے لئے طویل المدتی حکمت عملی اور عزم مصمم درکار ہو گا۔ تنازع کشمیر پر پاکستان کا شروع کیا گیا مشن انسانی آزادیوں‘ اقوام متحدہ کے چاٹر اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر مشتمل ہے۔ دنیا کے لئے ان اصولوں کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ امریکہ میں فریاد کناں کشمیریوں کی صدا جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک دو سو ممالک کے سربراہوں تک جا رہی ہے۔ امید ہے عالمی طاقتوں کی مصلحت کوشی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گی۔