پاکستان نے کشمیر پر غیر قانونی بھارتی قبضے کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے یکطرفہ اقدام کے بعد تشکیل دی گئی ردعمل کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے معاملے کے تمام قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے دوران عالمی عدالت انصاف سے رجوع کو بہتر قرار دیا۔ عالمی عدالت انصاف عام طور پر ان بین الاقوامی تنازعات کی سماعت کرتی رہی ہے جو کسی ریاست اور فرد‘ ریاست اور تنظیم یا ایک ریاست کے دوسری ریاست سے کسی معاہدے سے متعلق ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون ہر صورت حال کے لئے الگ ضابطے اورطریقہ کار تجویزکرتا ہے۔ کشمیر جیسے نازک اور اہم تنازع کو عالمی عدالت انصاف میں لے جا کر یقینا اس کی قانونی حیثیت کو عالمی سطح پر ایک سند دلائی جا سکتی ہے۔ اس جھگڑے کا آغاز سراسر بھارت‘ برطانیہ اور مہاراجہ کشمیر کے گٹھ جوڑ سے ہوتا ہے۔ ریڈ کلف سکیم سے قبل وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن‘ ان کے سٹاف افسر لارڈ اسمے اور دیگر اعلیٰ حکام کے پاس ایسے سروے اور جائزہ رپورٹس آ رہی تھیں جن میں پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقوں کا ذکر تھا۔ ان علاقوں میں گرداس پور بھی شامل تھا مگر حتمی سکیم کا اعلان کیا گیا تو کنیا کماری سے سری نگر کو ملانے والے ہائی وے پر واقع گرداس پورکو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ وی پی مینن کے جال میں پھنس گئے اور محدود خود مختاری کے لالچ میں پاکستان کے ساتھ صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ توڑکر بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ یوں عوام کی خواہش کے برعکس فیصلہ کیااور اہل کشمیر کو بھارت کے جبر کے سامنے لا پھینکا۔ پاکستان اور کشمیری باشندوں نے بھارت اور مہاراجہ کشمیر کی سازش کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ کشمیری عوام کو پاکستان نے ہر سطح پر مدد اور تعاون کا یقین دلایا۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں کشمیر کا کچھ حصہ بھارت کے تسلط سے آزاد ہو گیا جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں زندگی بالکل ایک دوسرے کے برعکس ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کی 9لاکھ فوج کے نرغے میں ہے۔ کشمیریوں کو حراست اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ زندگی کے بنیادی حقوق ان سے چھین لئے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر کے باشندے اپنے انسانی‘ مذہبی اور سیاسی حقوق سے کلی طور پر استفادہ کر رہے ہیں۔ کسی قانونی فورم پر جب لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیر کے حصوں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں اس بنیادی فرق کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت نے گزشتہ پون صدی کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا ہر ہتھکنڈہ آزمایا ہے۔ معصوم اور شیر خوار بچوں سے لے کر چلنے پھرنے سے قاصر بزرگ مرد وخواتین پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ بھارتی فوج لڑکوں کوگھروں سے اٹھا کر قید کر لیتی ہے یا پھر انہیں دہشت گرد قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کو آزادانہ نقل وحرکت کی آزادی نہیں‘5اگست سے پہلے بھارت نے پورے مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے ہر قسم کے اجتماع کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔ سکول اور کالجوں میں طلبا کو جانے کی اجازت نہیں۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بند پڑی ہیں۔ کئی علاقوں میں خوراک اور ادویات کی قلت ہو چکی ہے۔ بھارت ممنوعہ آتشگیر مادے سے لے کر پیلٹ گن اور کلسٹر بم تک استعمال کر رہا ہے۔ نہتے کشمیری بھارت کے جدید اسلحے کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ سارا عمل بنا کسی قانونی کارروائی کے ہو رہاہے اس لئے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران اقوام متحد دو بار مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کو تشویشناک قرار دے چکی ہے۔ سپر پاور امریکہ نے چند ہفتے قبل مذہبی رواداری کے متعلق ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں اقلیتی برادریوں کے لئے بھارت کو نہایت برا ملک قرار دیا گیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف چونکہ بین الاقوامی اقدار کی محافظ ہے اس لئے کشمیر کا معاملہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مقدمہ کے طور پر عالمی عدالت میں دائر کیا جائے تو بھارت کے لئے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں رہے گا کہ کشمیری اس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ بھارت نے 1948ء میں اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قرار دادوں سے انحراف کیا۔ مقبوضہ کشمیر سے اپنی افواج واپس نہ بلا کر اس نے استصواب رائے کا عمل روک رکھا ہے۔ بھارت جو پہلے اس معاملے کو متنازع مان کر بات چیت پر آمادہ ہوتا رہا ہے اب کئی برسوں سے وہ اسے دو طرفہ معاملہ ماننے سے انکاری اور داخلی مسئلہ قرار دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں تسلیم کیا ہے کہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ اگرچہ بھارت کچھ مدت سے کشمیر پر جنگ کرنے کے اشارے دے رہا ہے مگر پاکستان نے اس کی اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تنازع کشمیر کو پرامن انداز میں حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ عالمی برادری نے کئی تنازعات کو اپنی قابل قدر دلچسپی کے ذریعے کسی بڑے جانی نقصان کے بغیر طے کیا ہے۔ اہل کشمیر ایک لاکھ جانوں کی قربانی دے چکے ہیں‘ خواتین کی بے حرمتی اور نوجوانوں کی لاشیں ان کوباور کراتی ہیں کہ دنیا سے انصاف اٹھ گیا ہے‘ اہل کشمیر کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ان کا عالمی نظام سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ پاکستان اگر عالمی عدالت انصاف میں جاتا ہے تو ممکن ہے بھارت وہاں پیش ہونے سے انکار کر دے مگر پھر بھی یہ فیصلہ پاکستان اور اہل کشمیرکا موقف درست ہونے کی دلیل ثابت ہو گا۔