رمضان المبارک کا چاند ہمارے مفتی منیب الرحمن نے دیکھ لیا۔ دیکھا لمبی دوربین سے اور اعلان کیا ٹی وی چینلوں کے کیمروں کے سامنے۔ گلیلیو نے بھی دوربین ہی سے زمین کی حقیقت دریافت کی تھی اور پادری وکلیسا کی ناراضی پر اس نے توبہ کر کے اپنی جان بچائی تھی۔ اب ہمارے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فرماتے ہیں کہ دوربین ہی سے چاند دیکھنا ٹھہرا تو مفتی صاحب ہی کیوں دیکھیں‘ ہم خود کیوں نہ دیکھ لیں۔ ہم پہ اعتراض ہے تو محکمہ موسمیات والے دیکھ لیں گے۔ اس پر مفتیان کرام اور علماء بہت خفا ہوئے۔ فرمایا وزیر اعظم نے یہ وزارت کس شخص کے سپرد کر دی ہے کہ مفتیوں اور عالموں کے منہ کو آتا ہے اور زبان چلاتا ہے۔ ادھر وزیر موصوف کو اپنے اوپر اعتراض اورکھلا‘ بولے جنہیں اپنے قریب بیٹھا آدھی نظر نہیں آتا بھلا انہیں چاند کیا نظر آئے گا۔ ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑتے کہ ہمیں علماء اور مفتیوں کا احترام ہے‘ مریں گے تو وہی نماز جنازہ پڑھائیں گے مگر یہ بھی ہے کہ وزیر موصوف کی دلیل کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ زمین و آسمان کا جو بھی ٹوٹا پھوٹا علم ہے‘ وہ اسی سائنس اور سائنس دانوں کا دیا ہوا ہے۔ مذہب اور سائنس کا جھگڑا کوئی آج کا تو ہے نہیںکہ اسے ایک کالم میں نمٹا دیا جائے۔ پندرھویں سولہویں صدی سے یہ تنازعہ چلا آتا ہے۔خیر سے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں بھی ایسے روشن خیال لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اس تنازعے کو طے ہونا چاہیے اور آسمانی صحائف خصوصاً قرآن حکیم کو بھی تدبر و تفکر کا موضوع بنانا چاہیے۔ چنانچہ ایسی کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں آیات قرآنی سے کائنات اور انسانی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ ایک کتاب تو پوری کی پوری قرآن حکیم کی سائنسی تشریح پر مبنی ہے۔ ہمارے سرسید نے سائنس اور مذہب کا تنازعہ ختم کرنے کے لئے ایک بڑی بلیغ دلیل دی تھی۔ فرمایا تھا قرآن اللہ کا قول اور یہ کائنات اللہ کا فعل ہے اس لئے دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا۔ مطلب یہ کہ آسمانی صحائف اللہ تعالیٰ کے اقوال و احکامات کو بیان کرتے ہیں اور سائنس کائنات کے نظام میں جو قوانین فطرت کار فرما ہیں‘ انہیں تلاش و دریافت کرتی ہے اور جو کچھ بتاتی ہے اس کی تردید آسمانی صحائف نہیں کرتے بلکہ بہت سے سائنسی حقائق کی تصدیق ہوتی ہے۔ مغرب میں جن سائنسی حقائق پرکلیسا مضطرب ہوئی‘ کلیسا کا وہ اضطراب اب رفع ہو چکا ہے۔ پچھلے برسوں چرچ نے گلیلیو کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا‘ اس پر اظہار شرمندگی کے ساتھ معافی بھی مانگ چکی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک مذہب و سائنس کا یہ جھگڑا الجھا ہوا ہے۔ علماء چاند دیکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اسلامی مہینوں اور اسلامی تہوار و عبادات کو وہ محکمہ موسمیات یا ایسے اداروں کے سپردکرنے کے لئے تیار نہیں جنہیں فلکیات کا علم علماء اور مفتیوں سے زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں چاند نظر آنے اورنہ آنے کا تنازعہ بدستور موجود ہے۔ دو عیدیں اور دو روزے رکھنے کا رواج عام ہے۔ یہ مسئلہ شاید ہی کسی اور مسلم ملک میں ہو۔ روئیت ہلال کمیٹی عید کے چاند کے نظر نہ آنے کی صورت میں شہادتوں کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے یہاں تک کہ تراویح کا وقت ہو جاتا ہے۔ دور ایوبی میں تو عید کا اعلان سحری کے وقت ہوا جب لوگ روزے کی نیت کر چکے تھے۔ یہ جھگڑا جو وزیر سائنس اور علماء کے درمیان شروع ہوا ہے۔ تقاضا کرتا ہے کہ اسے مستقلاً سلجھا دیا جائے اور یہ تبھی ہو سکے گا جب علماء اس پر بات چیت کے لئے تیار ہوں۔ معروضی حقائق کو تسلیم کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ اگرچاند کے مسئلے پرقوم میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں اور خود ان کا وقار مجروح ہو رہا ہے تو اس معاملے میں کنارہ کشی اختیار کرنا ہی دانش مندی ہے۔ ماہرین فلکیات سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے نہ سلجھا تو یہ بات علما کے حق میں جائے گی اورسلجھ جاتا ہے تو علماء کی علیحدگی ان ہی کا دانش مندانہ فیصلہ تصور ہو گی۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے طنزو تشنع کا رویہ اختیار نہ کریں۔ علماء ہم سب کے لئے لائق احترام ہیں۔ وزیرسائنس شیشے کے گھر میں بیٹھ کے سنگ زنی نہ کریں کہ ایک جوابی پتھر آیا تو وہ سوچ میں پڑ جائیں گے کہ میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے۔ اصل میں سارا تنازعہ دائرہ کار کے تعین کا ہے۔ جب سائنس مذہب کے دائرے میں اور مذہب یعنی علماء سائنس کے دائرے میں دخل دیں گے جو ان کا میدان نہیں تو الجھنیں اور مسائل تو پیدا ہوں گے۔ اس ضمن میں مذہب کی تعلیمات کیا ہیں‘ بتانے کا ہے۔ چاند دیکھنا ان کی ذمہ داری نہیں‘ فلکیات کا علم اب اتنا ترقی یافتہ ہو چکا ہے کہ بارشیں کب ہوں گی؟ موسم کے تیورکب کیا ہوں گے؟ زلزلہ اور طوفان کی پیش گوئی اور اسی طرح سورج گرہن‘ چاند کا طلوع و غروب ان سارے حقائق کی پیشگی اطلاع دینا علم فلکیات کے ماہرین کا ہے۔ انہیں کلیتاً ان ہی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ انہیں تو یہ دیکھنا چاہیے کہ عوام اور ان کے مختلف طبقے چاند نظر آنے کے نتیجے میں عبادات اور تہوار کو کس طرح مناتے ہیں اور کہا ان میں وہ مذہبی روح اور مذہبی اقدار پائی جاتی ہیں جن کا حکم مذہب نے دیا ہے۔ اگر علما یہ ذمہ داری نبھاتے ہیں تو وہ اپنا فرض پوری طرح ادا کر رہے ہیں لیکن اگر عبادات و تہوار کے معاملے میں علما غافل ہیں تو رویت ہلال کمیٹی میں رہ کروہ کتنی ہی مستعدی کا مظاہرہ کریں یہی سمجھا جائے گا کہ انہیں عہدے اور منصب سے دلچسپی ہے۔ یہ تاثر علماء کے لئے مفید نہیں۔ یورپ میں بھی جب تک کلیسا اورپادری حضرات اپنے دائرے سے نکل کر سائنس اور دیگر علوم میں دخل اندازی کرتے رہے اور سائنسی حقائق کو عقل و دانش کی کسوٹی پرپرکھنے کے بجائے اپنے عقائد اور ایمانیات کی روشنی میں دیکھتے اور ان حقائق کی تردید کرتے رہے۔ تنازعات جنم لیتے رہے۔ انہوں نے اس معاملے میں اس درجہ انتہا پسندی اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا کہ سائنسی حقائق اور انکشافات کرنے والوں کو کڑی سزائیں دینی شروع کیں۔ کسی کو زندہ جلا دیا ‘ کسی کو عقوبت خانے میں دھکیل دیا۔ کتابوں کو نذر آتش کیا۔ نتیجے میں جو ردعمل پیدا ہوا اسے نہ کلیسا روک سکی اور نہ بادشاہ۔ جس نے کلیسا کی پشت پناہی اختیار کر رکھی تھی۔ روشن خیال طبقہ کلیسا کو شکست دے کر برسر اقتدار آیا تو اس نے مذہب کا دائرہ کار محدود کر دیا۔ مذہب فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار پایا۔ اجتماعی اور حکومتی معاملات سے مذہب کو الگ تھلگ کر دیا گیا۔ اسے عقل و خرد کی اعتقادات اور توہمات پر فتح کیا گیا۔ یہ یورپ کی تاریخ ہے۔ ہمارے ملک میں ہر چند کہ یہ صورت حال نہیں۔ لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ چاند دیکھنے اور نہ دیکھنے کے معاملے میں کشمکش کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے۔ چونکہ لوگ بھی لکھ پڑھ گئے ہیں تو رویت ہلال کمیٹی کے کردار پر ان کے ذہنوں میں بھی اعتراضات و سوالات میں کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ رویت ہلال کمیٹی میں علماء دوربین سے چاند دیکھنے کے علاوہ ماہرین فلکیات سے بھی رجوع کرتے ہیں اور کسی بھی اعلان میں ان کا مشورہ شامل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر تنازعہ ختم نہیں ہوتا اور ملک میں رمضان کے روزوں اور عیدوں میں قومی یکسانیت اور اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا تو پھر علما کو سوچنا چاہیے۔ انہیں رویت ہلال کے منصب پر اپنے وقار اور احترام ہی کو مقدم رکھنا چاہیے کہ عالم بے وقار ہو جائے تو اس کے علم کی ساکھ بھی مجروح ہو جاتی ہے۔