کابل ( نیٹ نیوز) طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کا کہنا ہے ہمارا پیغام واضح ہے کہ افغانستان کو بچانے کے لیے غیرملکیوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے ۔ مخالفین وقت ضائع کر رہے ، ہمارا پیغام واضح ہے ۔ ہبت اللہ اخونزادہ کا عیدالاضحیٰ سے پہلے پیغام میں کہا کہ فوجی پیش قدمیوں کے باوجود امارات اسلامی تنازع کا سیاسی حل چاہتی ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ طالبان جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم لیکن مخالفین وقت ضائع کر رہے ہیں، قیامِ امن اور سلامتی کے ہر موقع سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہر کے لوگوں کی بجائے ہمیں اپنے مسائل مل جل کر حل کرنے چاہئیں۔ طالبان لیڈر نے کہا کہ خطے میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوشاں رہیں گے ۔ انہوں نے اپنے پیغام میں عید کے موقع پر جنگ بندی سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا۔ ملا ہبت اﷲ نے واضح کیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک اخلاف استعمال کر نے کی اجازت نہیں دینگے ،دنیا ہمارے داخلی امور میں کسی قسم کی دخل انداز ی نہ کرے ،بیرونی افواج کی اکثریت چلی گئی ہیں باقی انخلا کی حالت میں ہے ، کافی اضلاع اور وسیع علاقوں میں مکمل امن و امان برقرار ہے ،مذاکرات اور سیاسی عمل کے پیشرفت کی خاطر سیاسی دفتر کھولا ، افغانستان سب کا مشترکہ گھر ہے ،کسی کو بھی مستقبل کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے ، قبضے میں لیے والا اسلحہ، فوجی گاڑیاں، سازوسامان، سرکاری عمارتیں، قومی اثاثہ جات اور بیت المال سے منسلک تمام چیزیں قوم کی امانت ہیں۔ ملا ہبت اللہ نے کہا میں آپ تمام حضرات کو عید الاضحی کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتاہوں،اﷲ تعالی کی نصرت سے ماضی کی نسبت ہمارے مجاہدین بہت مضبوط، منظم، اسلحہ سے لیس اور طاقتور ہوئے ہیں۔ تمام بیرونی افواج کے انخلا کے بعد ہم امریکہ سمیت دنیا کیساتھ باہمی تعامل اور وعدوں کے دائرے میں مضبوط سفارتی، معاشی اور سیاسی تعلقات چاہتے ہیں اور اسے تمام فریقوں کی بھلائی میں سمجھتے ہیں۔ملک میں تمام غیرملکی سفارتکاروں، سفارتخانوں، قونصل خانوں، فلاحی اداروں اور سرمایہ کاروں کو مکمل یقین دلاتے ہیں کہ ہماری طرف سے انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ان کی موجودگی ہمارے ملک کی ضرورت ہے ۔تمام ملکی فریقوں کو بتلاتے ہیں کہ ہم کسی سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتے ، اگر وہ ہمارے ساتھ حقیقی اسلامی نظام کو تسلیم کریں، ہم ان کے تمام حقوق اور جائز مطالبات کو مان لیں گے ۔ مخالف صف میں کھڑے تمام فوجیوں کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ جنگ، لڑائی اور مخالفت سے دستبردار ہوجاؤ، جس طرح ہزاروں فوجی مجاہدین سے آملے ہیں، امارت اسلامیہ نے ان کی عزت کی ، بقیہ فوجی بھی ہم سے مل جائیں، اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کے خطرات سے بچائیں ۔ہم ان چند عناصر کو بتلاتے ہیں ، جو بعض افراد کو بغاوت پر اکسانے اور جنگ جاری رکھنے کی ترغیب اور یا سازشوں کے شکار بنے ہوئے ہیں، انہیں ماضی کے ان تجربات سے سیکھنا چاہیے ، جب انہوں نے ہزاروں غیرملکی حامی افواج، طیاروں اور جدید ترین اسلحہ اور وسائل سے کچھ حاصل نہ کیا تو اکیلے بھی کچھ نہیں پاسکیں گے ۔ تعلیم و تربیت کے منصوبے پر امارت اسلامیہ خاص توجہ دیتی ہے ۔ مدارس دینیہ، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھلے رکھیں۔ امارت اسلامیہ نے اسی مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیشن کو ذمہ داری سونپ دی کہ جنگ کے دوران مجاہدین کی جانب کسی کو تکلیف نہ پہنچ پائیں۔ سمع شکایات کے کارکنوں کو خصوصی ہدایت دی جاتی ہے کہ عوام کی شکایات فی الفور سنیں، صحت کے شعبے میں عوام کے لیے ممکنہ حد تک سہولیات کی فراہمی بھی امارت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے ۔شریعت کے دائرے میں خواتین کے لئے تعلیم کا مناسب ماحول فراہم کیا جائے گا۔اسلامی احکام اور ملک کے قومی مفادات کے دائرے میں امارت اسلامیہ آزادی اظہار رائے کے لیے پرعزم ہے ۔ صحافی حضرات ان دو اہم ترین نکات کو مدنظر رکھ کر صحافتی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے سرگرم عمل ہیں۔ تمام بااستعداد،پیشہ ور طبقات (افراد) پروفیسرز، اساتذہ، ڈاکٹرز، سائنسدان، انجینئرز ، تعلیم یافتہ افراد، قومی تاجر اور سرمایہ کار حضرات مطمئن رہیں کہ امارت اسلامیہ کے آمد سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ہمارے ملک کو ان کی صلاحیتوں، رہنمائی اور کام کی اشد ضرورت ہے ۔ ملک میں غریبوں، یتیموں، معذروں، قیدیوں کے خاندانوں اور دیگر محتاج حضرات کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنی چاہیے ۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹس میں کہا کہ ترکی کے شام اور لیبیا سے متعلق باتوں پر مشتمل بیانات مجھ سے غلط طور پر منسوب کئے جارہے ہیں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے کسی اخبار کو بیان نہیں دیا کہ ترکی شام اور لیبیا اور دیگر ممالک میں مداخلت کررہا ہے ۔ طالبان کی زیر قبضہ علاقوں میں میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ،تاریخی یادگاروں کی حفاظت کی جارہی ہے ۔ ذبیح اللہ نے کہا نیمروز کے ضلع چغانسر پر بھی مجاہدین نے قبضہ کرلیا ، کئی فوجی مارے گئے اور 27 کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہاں سے ٹینک اور دیگر اسلحہ بھی قبضہ میں لیا گیا ہے ۔ کاپیسا کے تغاب ضلع کے علاقہ قلعہ صالح میں دشمن کی بمباری سے بچوں اور خواتین سمیت کئی عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوگئے ۔ طالبان شدید لڑائی کے بعد قندھار میں داخل ہوگئے ، رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا ،ٹیلیفون سروس بھی معطل کردی گئی، افغان حکومت کی جانب سے قندھار جیل میں قید طالبان کو ہنگامی طور پر کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ گورنر قندھار نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کابل میں موجود کچھ افراد نے قندھار پر طالبان کے قبضے کی راہ ہموار کی اور ان افراد کی ایک ٹیلی فون کال پر 10 سے 12 چوکیاں خالی کر دی گئیں۔ افغان حکومت نے صوبہ پروان کا ضلع شیخ علی اور بامیان کا ضلع کمہرد کو طالبان سے چھڑانے اور 280 طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ امریکہ اور وسطی ایشیا کے 5 ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ افغانستان میں طاقت سے ایک نئی حکومت مسلط کرنے کی خطے میں کوئی حمایت نہیں کرے گا، واشنگٹن سے جاری بیان میں امریکہ ، قازقستان، کرغیزستان ، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے کہا کہ دہشت گردوں اور تیسرے فریق کو ’’فائیو پلس ون ‘‘ ممالک کو دھمکانے یا ان پر حملہ کرنے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ طالبان ترجمان ڈاکٹر نعیم نے ٹویٹس میں کہا ہے کہ قطر میں اتوار کے روز طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے ، اعلامیہ کے مطابق قطر کی میزبانی میں افغانستان سے رہنماؤں نے بات چیت کی، مذاکرات کاروں نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں حالیہ بحران کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کو تیز کیا جائے گا اور جتنا جلد ممکن ہوا ایک منصفانہ حل تک پہنچا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں تمام مرد خواتین کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغان رہنماؤں نے اعلی سطح کے مذاکرات جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ فریقین نے اپنے مذاکرات کاروں کو بات چیت کا دائرہ کار بڑھانے کی ہدایت کی۔ تمام فریقوں نے اتفاق کیا کہ پورے افغانستان میں سول انفراسٹرکچر کی حفاظت کی جائے گی۔ متعلقہ حلقے شہری نقصان کو روکیں گے اور انسانی مدد فراہم کرنے میں تعاون کریں گے ۔ ویکسی نیشن سے متعلقہ افراد کی حفاظت کی جائے گی اور کووڈ 19 کے حوالے سے اکسیجن اور دیگر تمام ضروری اشیا کی فراہمی میں رکاوٹ سے گریز کیا جائے گا۔ فریقین نے امن عمل میں تعاون پر قطر ، ہمسایہ ملکوں، عالمی برادری سے اظہار تشکر کیا ۔افغان حکومتی وفد نے جنگ بندی پر زور دیا جس پر طالبان نے جنگ بندی کی مشروط پیش کش کرتے ہوئے اپنے 7 ہزار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔