بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان کے موقف اور پرتحمل طرز عمل کی ستائش کا سلسلہ جاری ہے۔ روس‘ ترکی اور اردن کے بعد قطر اوربرطانیہ نے بھی جنوبی ایشیا کو کشیدگی سے پاک رکھنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کے اقدامات کو سراہا ہے۔ خصوصاً بھارتی پائلٹ کی رہائی کے بعد عالمی برادری یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان جنگ کی بجائے بات چیت سے تنازعات حل کرنے میں بھارت کی نسبت زیادہ سنجیدہ ہے۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کر کے ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے وزیر اعظم کو دوران گفتگو بتایا کہ ان کے اقدامات کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ہے۔ دوسری طرف اطلاع ہے کہ پاکستان کے دیرینہ دوست سعودی عرب نے پاک بھارت کشیدگی کو ختم کرانے کے لئے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے کئی پہلو عالمی برادری کے لئے فکر مندی کا باعث ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ دونوں ایٹمی ریاستیں ہیں۔ کشیدگی جنگ کی شکل اختیار کر لے تو اس بات کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی سے آگاہ ہے۔ اسی لئے بہت سے ممالک کی کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی نوبت نہ آئے۔بلا شبہ پاکستان اور بھارت عالمی سیاست کے اہم کھلاڑی ہیں۔ دونوں سٹریٹجک اور معاشی طور پر اپنے اتحادی ممالک کے لئے مخصوص فوائد کا ذریعہ ہیں۔ بدامنی ‘کشیدگی یا پھر جنگ ہونے کی صورت میں ان کے اتحادی ممالک کو میسر اقتصادی فوائد بند ہو جائیں گے اس لئے ان ممالک کی خواہش ہے کہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔ حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار بھارت ہے جو گزشتہ ایک برس سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل کشمیری آبادی اور پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ بھارت میں جب بھی حکومت کو کسی اہم موقع پر عوام کی حمائت کی ضرورت پڑی بی جے پی حکومت نے پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کا ہتھیار استعمال کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شہرت ایک ایسے سیاستدان کی ہے جو بھارت میں بسنے والے غیر ہندوئوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ نریندر مودی مسلمانوں کے لئے خاص تعصب رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گائے ذبح کرنے کا بہانہ پیش کر کے جتنے مسلمانوں کو قتل کیا گیا ان کے قاتل سیاسی پشت پناہی کے باعث اپنے عمل پر شرمندہ نہیں۔ نریندر مودی نے خطے کو اتحاد کی بجائے نفرت کی بنیادوں پر تقسیم کیا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کی۔ برما میں بدھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جب مسلمان روہنگیا آبادی کا قتل عام ہوا تو بھارت نے معمولی سی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ نہ کیا۔بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی سیاسی ترقی کا زینہ بنے۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ کشمیری عوام کی طرف سے حق خود ارادیت کے مطالبہ پر نت نئے اسلحے اور ظلم کی ایجاد گری کے ذمہ دار بھی نریندر مودی ہیں۔ ایک ایسا سیاستدان جس کا پورا سیاسی سفر تشدد اور انتہا پسندی سے آلودہ ہے اس کا سوا ایک ارب آبادی کے ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا کسی المیے سے کم نہیں۔ بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ بڑے کاروباری گروپوں کی مدد سے اقتدار میں آنے والے نریندر مودی اگرچہ ملک کی جی ڈی پی کو 6.50فیصد سے اوپر رکھنے میں کامیاب رہے ہیں مگر ان کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ بھارت میں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں اور خطے میں کشیدگی بڑھی ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منصوبہ ساز سمجھتے ہیں کہ ان کے حامی ووٹر سب سے زیادہ پاکستان دشمنی پر پرجوش ہوتے ہیں۔ ’’تنازع کشمیر‘‘ نیا نہیں۔ یہ اکہتر سال پرانا مسئلہ ہے جس کی طرف عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں نے توجہ نہیں دی۔ پاکستان اس تنازع کا بنیادی فریق ہے۔ بھارت جب جبر اور ظلم سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دبانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان لازمی طور پر کشمیریوں کی آواز بنے گا۔ انتخابات سے قبل مودی حکومت کو اپنی معاشی و سیاسی پالیسیوں کے ضمن میں عوام کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ کئی برس کے بعد عوام ایک بار پھر کانگرس اور دوسری جماعتوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایل او سی کی خلاف ورزیاں اور پھر پلوامہ حملے کے انتقام کی آڑ میں بھارتی طیاروں کا پاکستانی حدود میں بم گرانا خطے کو نئے خطرات کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ بھارت کا یہ جھوٹ بے نقاب ہو چکا ہے کہ اس کے طیاروں نے پاکستانی حدود میں اس کیمپ کو نشانہ بنایا جہاں عسکریت پسند تربیت حاصل کرتے تھے۔ بھارت نے مرنے والوں کی کثیر تعداد بتا کر اپنے اذیت پسند لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ جھوٹ کا پردہ فاش ہونے کے بعد اور پاکستان کے جوابی ردعمل نے نریندر مودی حکومت کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان نے جارحیت کی بجائے دفاع کا حق استعمال کیا اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو غیر مشروط طور پر رہا کر کے عالمی برادری سے داد وصول کی۔ نریندر مودی کا منصوبہ بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکا کر دوبارہ اقتدار سنبھالنا ہے مگر سچ یہ ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران دنیا کے ہر قابل ذکر ملک اور اس کے سربراہ نے پاک بھارت کشیدگی پر فکرمندی کا اظہار کیا۔ اس فکر مندی میں تنازع کشمیر کی تاریخ اور یہ یاددہانی بھی کسی طور پر شامل رہی ہے کہ بین الاقوامی برادری نے تنازع کشمیر کو حل کرانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ بھارت کی اشتعال انگیزی کے باعث پوری دنیا تک تنازع کشمیر اور کشمیری عوام کے مصائب پہنچ رہے ہیں۔ دنیا جان چکی ہے کہ کشمیری اب بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔