ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے دورہ بھارت کے دوران پاکستان اور بھارت کو تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین امن مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو ناروے اور دوسرے ممالک کے لوگ مدد کرسکتے ہیں۔ تنازع کشمیر کے حل ہونے کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت اپنے اوپر دبائو اور دفاعی اخراجات لازمی طور پر کم کریں۔ ناروے کی وزیراعظم نے دو ٹوک اندز میں کہا کہ ’’فوجی طاقت کے ذریعے‘‘ مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاسکتا۔ ناروے بھلے آبادی اور فوجی طاقت کے اعتبار سے دنیا کے چھوٹے ملکوں میں شمار ہوتا ہو مگر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، مستحکم جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے اسے چند گنے چنے مہذب ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور یہاں پاکستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ناروے یورپ کا اہم ملک ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر اس کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ ناروے کی کل آبادی ساٹھ لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے۔یہاں 32700 پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر صومالیہ کے مسلمان ہیں جو 30 ہزار کی تعداد میں ہیں۔ تیسرے نمبر پر عراقی مسلمان ہیں جن کی تعداد 29 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ناروے میں مختلف قومیتوں اور علاقوں کے لوگ آباد ہیں اس لیے ان لوگوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کو ملکی آئین میں تحفظ دیا گیا ہے۔ ناروے میں مسلمانوں کی نوے تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ دوسرے مسلمان گروپوں کی نسبت ناروے کی سیاسی سرگرمیوں میں پاکستانی زیادہ مستعد اور فعال ہیں۔ تنازع کشمیر کے حل کی خاطر نارویجئین مسلمان مدت سے کوششیں کر رہے ہیں۔ نومبر 2018ء میں ناروے کے سابق وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا اور حریت رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سابق نارویجئین وزیراعظم ’’جیل میگنے بانڈوک‘‘ وہ پہلی غیر ملکی شخصیت تھے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ بعض حلقوں کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں فوج کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق رپورٹ جاری ہونے کے بعد ناروے کے سابق وزیراعظم حقائق کا جائزہ لینے مقبوضہ کشمیر آئے تھے۔ مسٹر بانڈوک بعدازاں پاکستان تشریف لائے اور آزادکشمیر میں کشمیری حکام سے تنازع کے حل اور بھارت کی پالیسیوں کے متعلق تبادلہ خیال کیا۔ مسٹر بانڈوک کا دورہ اس لحاظ سے بھی اہم سمجھا جارہا تھا کہ انہیں امن اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک پرخلوص اور ماہر شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ وہ سری لنکا کی خانہ جنگی ختم کرانے کے لیے تامل ٹائیگرز اور حکومت کے مابین ثالثی کا فریضہ انجام دے چکے تھے۔ نارویجئین وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے جس انداز میں بھارت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس موقف کا اظہار کر رہی ہیں اسے بین الاقوامی برادری کی خاطر خواہ حمایت حاصل ہے۔ بھارت ایک بڑے ملک کے طور پر خطے کے چھوٹے ممالک کی قومی سلامتی سے کھیلتا رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی سقوط مشرقی پاکستان کے لیے بھارت کے شرمناک کردار کا متعدد بار اعتراف کر چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری پر یقین رکھنے والے ممالک نے بین الاقوامی مجبوریوں کے تحت اگرچہ نریندر مودی کو سفارتی مراعات فراہم کی ہیں مگر سچ یہی ہے کہ مودی کو ساری دنیا میں مسلمانوں کے قاتل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس تسلسل کے ساتھ گجرات اور دیگر ریاستوں میں بہانے بہانے سے مسلمانوں کے قتل کے واقعات بتا رہی ہیں۔ اس موقع پر ضرورت ہے کہ عالمی برادری بھارت کو بتائے کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کو قاتل بنانا نہیں بلکہ تمام مذہبی و قومیتی گروہوں کو ان کے آئینی حقوق کی فراہمی ہے۔ پاکستان مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ تنازع کشمیر کو فوج کے ذریعے طے نہیں کیا جاسکتا۔ یہی موقف افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے متعلق پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جو ایک مدت تک افغانستان کو فوجی طاقت سے روندنے پر بضد رہا اب مذاکرات کی بات کر رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کے جواب میں بھارتی حکام کا رویہ غیرمناسب رہا ہے۔ جب بھی مذاکرات بحالی کی بات کی گئی بھارت نے اس کو دہشت گردی اور دوسرے مسائل کے ساتھ جوڑ کر راہ فرار اختیا رکی۔ بھارت کی جانب سے ایک بات بڑے تسلسل کے ساتھ یہ بھی کہی جاتی رہی ہے کہ تنازع کشمیر میں اسے کسی تیسرے فریق کی ثالثی یا مداخلت قبول نہیں۔ بھارت مختلف دوطرفہ معاہدوں کو بنیاد بنا کر ثالثی کی پیشکشوں کو رد کرتا آیا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر روس، ترکی، چین اور بعض دیگر ممالک تنازع کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ ان پیشکشوں کے جواب میں بھارت کا طرز عمل بہت ناگوار اور بسااوقات جارحانہ رہا ہے۔ ناروے کی وزیراعظم نے بھارت کے دورہ کے موقع پر بھارت کے لیے انتہائی حساس معاملے پر وہ موقف اختیار کیا ہے جسے بھارت ہمیشہ مسترد کرتا رہا ہے۔ کشمیری رہنمائوں اور پاکستان نے وزیراعظم ایرنا سولبرگ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔ یقینا بھارت کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ عالمی برادری کے دبائو کو زیادہ مدت تک برداشت کرسکے۔ وہ پاکستان سے مذاکرات کی طرف ضرور آئے گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایسا موقع آنے کی صورت میں اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے مطلوبہ ہوم ورک تیار رکھے۔