واشنگٹن( ندیم منظور سلہری؍ این این آئی) وزیراعظم عمران خان نے وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد صورتحال کلیئر ہوگئی،طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہئے ، افغان طالبان اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں، بہت جلد امن معاہدے کاامکان ہے ، امریکہ سپر پاور ہے ، چاہیں یا نہ چاہیں، اچھے تعلقات رکھنا پڑتے ہیں، امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات نہیں چاہتے ، جیسے ماضی میں صرف امداد کیلئے تھے ، برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں ،ملک میں سیاسی جماعتوں سے نہیں ، مافیا سے نبرد آزما ہوں،پہلی بار پاکستانی حکومت، فوج اور امریکی حکام ایک پیج پر ہیں ، جمہوری حکومت اورفوج کی پالیسیوں میں کوئی اختلاف نہیں، بھارت اور پاکستان کے مابین تجارت کے آغاز سے غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے ،بھارت بات چیت کے لئے ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے ۔منگل کو یہاں امریکی تھنک ٹینک سے خطاب اور سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی تاہم اب امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں افغان حکومت سے مذاکرات کے لئے آمادہ کروں گا، طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہئے ۔انہوں نے کہا اسامہ کے ہمارے ملک سے نکلنے پر بڑی جگ ہنسائی ہوئی، ہمیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، ہم نہیں چاہتے کہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما ہو۔انہوں نے کہا ہمارے لئے بہتر ہے کہ کسی جہادی تنظیم کو پنپنے نہ دیں کیوں کہ اس کا معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، اب ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ جہادی گروپوں کو ختم کیا جائے گا۔انہوں نے کہا مسئلہ کشمیر بھی وہاں کے عوام کی مرضی سے حل ہوگا، جو وہ چاہیں گے ، وہی ہوگا۔اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آسیہ بی بی اپنی مرضی کے مطابق بیرون ملک چلی گئی، ماضی میں ایک مخصوص مذہبی گروپ نے ملک کو یرغمال بنا رکھا تھا لیکن ہماری حکومت میں جیسے ہی وہ سڑکوں پر آئے انہیں گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقلیتوں کے حوالے سے عملی اقدامات مغربی دبائو پر نہیں کر رہے بلکہ وہ بھی ہمارے شہری ہیں۔پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے ، سابق حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، حکومت مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔انہوں نے کہا جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو اسی مذہبی گروپ نے ریاست کو دو دن تک یرغمال بنائے رکھا لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے کا احترام اور اقلیتی خاتون کا استحقاق مجروح نہیں ہونے دیا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔ انہوں نے کہا مدارس میں اصلاحات کر رہے ہیں۔عمران خان نے میڈیا سے متعلق سوال پر کہا کہ میں برطانوی میڈیا کے ماحول سے اچھی طرح واقف ہیں اور پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارا میڈیا برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے ۔انہوں نے کہا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے لیکن ساتھ ہی کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے ۔انہوں نے کہا امریکہ میں بھی میڈیا کو اتنی چھوٹ نہیں کہ وہ برسراقتدار حکومت کے وزیراعظم کی ذاتی زندگی کے بارے میں منفی رائے قائم کرے ۔وزیراعظم نے کہا آصف زرداری کے دور میں صحافی غائب ہو جایا کرتے تھے ، مسلم لیگ (ن) کے دور میں صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو میڈیا کنٹرول نہیں کرنا چاہئے لیکن ایک ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے معیارات کا جائزہ لے ۔انہوں نے کہا ملک ایک طرف مالی خسارے سے دوچار ہے اور اس پر میڈیا آئی ایم ایف کا حوالہ دے کر روپے کی قدر میں کمی سے متعلق غلط خبریں چلارہا ہے ، ایسا کہاں ہوتا ہے ؟عمران خان نے کہا یہ سینسر شپ نہیں لیکن ہم نگراں اداروں کو مضبوط بنائیں گے ۔انہوں نے کہا سیاستدانوں اور اشرافیہ نے منی لانڈرنگ کے ذریعے آف شور اکاؤنٹس بنائے اور مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کی، کرپشن کی وجہ سے دہشتگردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں کیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ مر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں، اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے ۔وزیراعظم نے کہا لوٹی ہوئی دولت تو واپس لی جاسکتی ہے لیکن تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے ۔عمران خان نے کہا میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں لڑرہا بلکہ ایک مافیا کے ساتھ لڑ رہا ہوں۔وزیراعظم نے کہا میں مافیا اس لئے کہتا ہوں کیونکہ ان کارویہ سیاسی جماعت کی طرح نہیں، اپوزیشن ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں لگی ہے ، کرمنل مافیا کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کر رہے ہیں، رقم وصول کر ر ہے ہیں۔انہوں نے کہا میں اسے احتساب اور مخالفین اسے انتقامی کارروائی کہتے ہیں۔انہوں ے کہا اپوزیشن جماعت جج کو بلیک میل کرنے کیلئے ویڈیو لے آئی، ایسا مافیا میں ہوتا ہے ۔عمران خان نے کہا نواز شریف نے لندن میں مہنگے ترین فلیٹ خریدے ، نواز شریف سے آمدنی کے ذرائع پوچھے تو وہ نہ بتا سکے ، پانامہ پیپرز آئے تو ایک طاقتور میڈیا نوازشریف کے دفاع میں سامنے آگیا۔عمران خان نے کہا بھارت سے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں،حکومت میں آتے ہی بھارت کی طرف ہاتھ بڑھایا، میں نے بھارتی وزیراعظم کو تعاون کی پیشکش کی تھی۔عمران خان نے کہا گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے میرے فیصلے کی پاک فوج نے بھی حمایت کی، ماضی میں میرے خیالات پر مجھے طالبان خان اور بغیر داڑھی کا دہشتگرد کہا گیا۔انہوں نے کہا پاکستان کی جمہوری منتخب حکومت اور پاک فوج ایک پیج پر ہیں۔انہوں نے کہا پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) لیڈرشپ نے فوج پر حملے کئے جس پر پابندی لگانی پڑی، فوج کی مدد سے ملک بھر میں مسلح گروپوں کو غیر مسلح کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا ایران کا مسئلہ عراق سے بھی بڑا مسئلہ بن سکتا ہے ، لوگ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کی سنگینی کو نہیں سمجھتے ، ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ دنیا اورپاکستان کیلئے تباہ کن ہو سکتی ہے ۔وزیراعظم نے کہا امریکہ سپر پاور ہے ، آپ چاہیں یا نہ چاہیں،اچھے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے مجھے ملاقات کی دعوت دی تھی تو میں تھوڑا پریشان تھا مگر امریکی صدر نے ہمارے دل جیت لیے ، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمارے درمیان قریبی تعلقات ہوں گے ۔قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کیلئے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت جوہری ہتھیار ترک کر دے تو پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا، تنازع کشمیر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے ،امریکہ اور ایران کے درمیان مصالحت کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں،امریکہ شکیل آفریدی کی بات کرتا ہے تو امریکہ سے ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے ۔عمران خان نے کہا پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے ، امریکہ واحد ملک ہے جو پاکستان اور بھارت میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا 72 سال سے حل طلب مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں، مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت مہذب ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔جب اینکر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اکیلے فیصلہ نہیں لے سکتے جس پر عمران خان نے کہا پاکستان میں جمہوریت ہے ، یہاں اپوزیشن موجود ہے ، وزیر اعظم کے لئے اکیلے فیصلہ لینا مشکل ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا 2014ء میں افغان طالبان نے جن دو امریکیوں کو قید کر لیا تھا، اگلے 48 گھنٹوں میں ان قیدیوں کی رہائی سے متعلق اچھی خبر ملے گی۔ وزیراعظم نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے حوالے سے کہا صدر ٹرمپ صاف گو انسان لگے جو لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں کرتے ۔علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے صدرٹرمپ سے ملاقات پراظہاراطمینان کیا۔وزیراعظم نے کہاکہ افغانستان کے سیاسی حل پراتفاق سے علاقائی امن کوفروغ ملے گا، پرامن اورمستحکم افغانستان پاکستان کیلئے اہمیت رکھتاہے ، پاک امریکہ باہمی مفاد،علاقائی امن کیلئے مضبوط شراکت داری اہم ہے ۔ وزیراعظم نے مائیک پومپیوکودہشتگردی کے خلاف کامیابیوں سے آگاہ کیا۔وزیراعظم نے مائیک پومپیوکومدارس اصلاحات سے متعلق آگاہ کیا۔وزیراعظم سے گوگل، فیس بک کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت امریکی بزنس ایگزیکٹوز کے وفد نے بھی ملاقات کی۔پاک امریکن بزنس کونسل کے عہدیدار، پاکستانی نژاد بزنس مین شاہد خان اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی بھی وزیراعظم سے ملیں۔وزیراعظم سے پاکستانی امریکنز ڈونرز کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی اور شوکت خانم ہسپتال کے لئے عطیات دیئے ۔ وزیراعظم نے اپنی ٹویٹس میں پرجوش استقبال پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ کو یقین دلانا چاہتے ہیں افغان امن عمل کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔وزیراعظم نے کہا مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ، بھارتی ردعمل پر حیرانگی ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے کیپیٹل ہل میں امریکی ارکان کانگریس سے بھی خطاب کیا، پاکستان کاکس سے خطاب کے موقع پر وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی، علی زیدی اور زلفی بخاری بھی موجود تھے ۔ وزیراعظم سے ارکان کانگریس کا تعارف کرایا گیا۔ وزیراعظم کے خطاب سے پہلے امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کیلئے بہت اہم ملک ہے ، دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی اہم ہیں، پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، امریکہ میں پاکستانیوں کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر رکن کانگریس شیلا جیکسن نے کہا کہ جنوبی ایشیامیں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے ، جنوبی ایشیا میں قیام امن کیلئے وزیراعظم کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔وزیراعظم نے پاکستان کاکس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کیخلا ف جنگ میں پاکستان نے بہت قربانیاں دیں،اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی جنگ لڑتا رہا ہے ،امریکہ نے ہمیشہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا، مسلح افواج سمیت تمام ادارے پوری طرح میرے پیچھے ہیں، یہاں آنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکی عوام پاکستان کو سمجھیں، افغانستان میں امن کیلئے امریکہ کے ساتھ ہیں، انہوں نے کہا کہ افغان مسئلہ بری طرح الجھا ہوا ہے لیکن ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو۔امریکہ کی جنگ پاکستان میں لڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور پومپیو کو بتایا کہ ہمیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا ہوگا۔