وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین ملاقات اس حوالے سے اہم رہی کہ امریکی صدر نے تنازع کشمیر پر اپنی ثالثی کی پیشکش برقرار رکھی۔ صدر ٹرمپ جو ایک روز قبل ہیوسٹن میں بھارتی وزیر اعظم کے جلسہ میں شریک تھے، انہوں نے تسلیم کیا کہ نریندر مودی کا لہجہ جارحانہ تھا۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جب پوچھا گیا کہ کشمیر کی صورت حال پر ان کا تبصرہ کیا ہے؟ اسی طرح ان سے مودی حکومت کے جابرانہ رویے پر امریکہ کی پالیسی دریافت کی گئی تو ایسے سوالات کو وہ ثالثی کی پیشکش اور وزیر اعظم عمران خان کی تعریف پر مبنی جملے ادا کر کے ٹال گئے۔ بہرحال امریکہ ایک سپرپاور ہے اس لیے تنازع کشمیر کے حل کے لیے منجمد بھارتی مؤقف میں ان کی ثالثی کی پیشکش گرم دراڑ ڈال سکتی ہے تو ان سے یہ کردار ادا کرنے کی درخواست کرنا کچھ غلط نہ ہو گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے 194رکن ممالک کے سربراہ امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ عمومی طور پر جن ممالک کے سربراہوں سے ملاقات نہیں ہو پاتی جنرل اسمبلی کا اجلاس موقع دیتا ہے کہ ان سے دو طرفہ امور پر الگ سے ملاقات کا اہتمام کیا جا سکے۔ وزیر اعظم چار روز سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ اس دوران انہوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم، چین کے وزیر خارجہ، ترکی کے صدر، ایران کے صدر، کئی افریقی ممالک کے صدور، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے سربراہوں، تجارتی و کاروبار کمپنیوں کے سی ای اوز اور امریکی اراکین کانگرس سے ملاقاتیں کیں۔ ان تمام ملاقاتوں میں پاکستان کے پرامن ملک ہونے، افغان تنازع میں اس کے کردار کی اہمیت، سرمایہ کاری کے مواقع اور کشمیر پر بھارتی مظالم کو زیر بحث لایا جاتا رہا ہے۔ وزیر اعظم کی اس بھرپور مہم کا بھارت کے پاس کوئی معقول جواب نہیں۔ بی جے پی نے اپنی ہر پالیسی کو آبادی کے بڑے حجم کے فریم میں رکھا ہے۔ پاکستان کی کشمیر پر بھرپور مہم کو رد کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی نے ہیوسٹن میں اپنی افرادی طاقت ظاہر کرنے کے لیے بھارتی تارکین کا جلسہ کیا۔ اس جلسے میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کے اقدام کا دفاع کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی موجودگی میں کہا کہ دہشت گرد آئین کی شق 370کا غلط استعمال کر رہے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم نے جھوٹ اور غلط بیانی کی انتہا کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون اور ممبئی حملوں کا ذمہ دار ایک ہی ملک ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون حملوں میں نہ کوئی پاکستانی شریک تھا نہ پس پردہ کسی پاکستانی شہری کا کوئی کردار آج تک سامنے آیا۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان مکمل تعاون کر رہا ہے۔ کئی بار بھارت کے ڈوزیئر کے جواب میں بعض وضاحتوں کا تقاضہ کیا گیا جن کا ریکارڈ کبھی بھارت کی طرف سے فراہم نہیں کیا گیا۔ یہ سارے حقائق عالمی ذرائع ابلاغ اور امریکی حکام کے علم میں ہونے کے باوجود بھارتی وزیر اعظم جس ڈھٹائی سے غلط بیانی کر رہے ہیںاس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے غلط اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے حقائق کو جھٹلانے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ رواں برس جولائی میں وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو خلاف معمول عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ دونوں رہنمائوں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ہر لمحہ کسی دھماکہ خیز خبر کی توقع کی جا رہی تھی مگر صدر ٹرمپ کے اس انکشاف نے ملاقات کو تاریخی بنا دیا کہ نریندر مودی نے ان سے تنازع کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اخلاقی لحاظ سے اس درجہ پست ثابت ہوئے کہ اپوزیشن کی تنقید کے جواب میں وہ آج تک یہ اعتراف کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے ایسی کوئی درخواست کی تھی۔ تنازع کشمیر کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ کشمیر پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا۔ آج مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی اولاد بھارتی مؤقف کو مسترد کر رہی ہے، جن کشمیری رہنمائوں نے بھارت کا ساتھ دیا وہ اور ان کی اولاد اپنی غلطی کا اعتراف کر کے قائد اعظم محمد علی جناح کی دور اندیشی کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ بھارت کے اپنے دانشور اور سابق سیاسی و دفاعی ماہرین کشمیر پر مودی حکومت کی پالیسی کو تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کی امریکہ آمد پر یورپ، ہندوستان، کشمیر، پاکستان اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے انسان دوست ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے ہیں۔ مشرقی پنجاب کے سکھ الگ وطن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آسام میں مسلمانوں کی زندگی بھارتی حکومت نے عذاب بنا رکھی ہے۔ کشمیر میں پچاس روز سے کرفیو ہے۔ نوجوانوں کو سکیورٹی فورسز گھروں سے اٹھا رہی ہیں۔ چار ہزار سے زائد کمسن لڑکے بھارت کی حراست میں ہیں۔ کشمیریوں کے کاروبار جلائے جا رہے ہیں۔ باغات کو فوج کاٹ رہی ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ سب حقائق ہیں جنہیں بھارتی صحافی اور عالمی ذرائع ابلاغ جانتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا اہل کشمیر سے وعدہ ہے کہ وہ عالمی برادری کو کشمیریوں کے دکھ سے آگاہ کر کے کردار ادا کرنے پر قائل کریں گے۔ وزیر اعظم کی صدر ٹرمپ اور دوسرے عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں کو تنازع کشمیر کے پرامن حل کی کوششوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خدانخواستہ یہ کوششیں عالمی رہنمائوں کی مصلحت یا بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئیں تو دنیا ایک بہت بڑے المیے کا شکار ہو سکتی ہے۔