مکرمی ! مسلمان آئینہ کی مانند ہے ‘ جو خامی دیکھتا ہے ‘ اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے ‘ وہی بہترین دوست ‘ خیر خواہ ہے جو اصلاح کرے ‘ لیکن ہم نے اصلاح کے نام سے عزتیں اچھالنا معمول بنا لیا ۔ درحقیقت ہم اخلاقی پستی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بڑے،چھوٹوں، اساتذہ ٗ عدلیہ ٗ صحافت ٗ اداروں سب کا احترام ختم ہو گیا ہے۔ یورپ کی تہذیبی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے کسی شخصیت یا نظریے کو حرفِ آخر نہیں سمجھا بلکہ اسکی سوچ کی غلطیوں کو دور کیا اور نئی سوچ کو جنم دیا اور سب سے اہم بات یہ کہ نقادوں کا انداز بھی جارحانہ نہیں بلکہ تخلیقی رہا اور جس پر تنقید ہوئی اس نے اگر کوئی غلطی پائی تو اس کی اصلاح کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہ کی جس سے نظریات کا علمی محاکمہ کرنے کی عادت معاشرے میں پیدا ہوئی اور معاشرے نے ترقی کی راہیں طے کیں، اصل تلخی بھی جب شروع ہوتی ہے جب خیالات کے بجائے شخصیات کی ذاتیات پر بات پہنچ جائے سقراط نے بھی اسکو کچھ یوں بیان کیا،’’اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں جبکہ کمزور دماغ کے لوگ، لوگوں پر تنقید کرتے ہیں‘‘نفی کررہا ہے۔ہم تنقید کے ذریعے اصلاح ضرور کریں ٗ لیکن اس آڑ میں تضحیک سے گریز کریں۔ (عابد ہاشمی ٗ آزاد کشمیر)