دو تین دن پہلے دوستوں کے ساتھ ایک کھانے کی محفل میں شریک تھا۔ دوران گفتگو ایک دوست نے ایک نامی گرامی تجزیہ کار کا ذکر کیا اور ان کی کسی تحریر کا حوالہ دینا چاہا۔ دوسرے دوستوں نے فوری طور پر بات سنے بغیر ہی رد کر دی۔ وہ دوست اس پر بڑے سٹ پٹائے، کہنے لگے کہ دیکھیں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، آپ بے شک کسی بات کو رد کر دیں، مگر دونوں رخ تو سامنے ہونے چاہئیں وغیرہ وغیرہ۔ باقی شرکا محفل اس دلیل سے قطعی متاثر نہیں ہوئے، ایک دوست چمک کر بولے،’’ آپ بھی دیکھیں کہ نااہلی کی معافی ہوسکتی ہے، مگر بدنیتی اور بددیانتی کی نہیں۔ہر ایک کی رائے میں غلطی کا امکان ہے ، کوئی بھی کبھی غلط یا درست ہوسکتا ہے، مگر جو بددیانت ہے، اس کی کسی رائے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ، وہ درست بات بھی کسی بدنیتی کی بنا پر ، خاص ایجنڈے کے تحت کر رہا ہو گا۔ اس لئے آپ ان صاحب کا براہ کرم حوالہ نہ دیں۔ ‘‘صورتحال کو گمبھیر ہونے سے بچانے کے لئے شرکا محفل میں سے ایک نے لطیفہ سنایا کہ رنجیت سنگھ یا اس کے جانشینوں میں سے ایک مہاراجہ دربار میںسائلوں کی درخواستوں پر فیصلے کر رہا تھا۔ راجہ تھک گیا تھا اور اوپر سے ایک ایسا آدمی آ گیا جو اسے ناپسند تھا۔ راجہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہاری درخواست رد کی جاتی ہے۔ وہ غریب چکرا گیا کہ ابھی تو مدعا بیان ہی نہیں کیا،کہنے لگا جناب ابھی تو درخواست میرے بوجھے (جیب )میں پڑی ہے۔ مہاراجہ نے شان بے نیازی سے جواب دیا، وہ بوجھے(جیب)ہی میںخارج کی جاتی ہے۔ یہ تو خیر گپ شپ کی محفل تھی ، شرکا بھی ازراہ تفنن ٹانگ کھینچ رہے تھے۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں عمومی طور پر منصفانہ تنقید کی شدید کمی ہے۔خاص کر سیاسی تقسیم اس قدر گہری اور شدید نوعیت کی آ چکی ہے کہ دونوں اطراف کے لوگ انتہائی قسم کا موقف اپنا چکے ہیں۔ اپنی رائے پر وہ اصرار اور دوسرے کی رائے یا تجزیہ سنے بغیر ہی رد کرنے پر تلے ہیں۔یہ عجیب وغریب قسم کی فکسیشن پہلے ہمارے سماج میں بھٹو صاحب کے حوالے سے آئی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک لوگ پرو بھٹو، اینٹی بھٹو کی تقسیم میں الجھے رہے، یہاں تک کہ زرداری صاحب نے وارد ہو کر پیپلزپارٹی کے بھٹو ووٹ بینک کا عملاً صفایا کر ڈالا اور بھٹو مخالفین کو بھی ترس آ گیا کہ بھٹو کے اپنے داماد نے ان کی پارٹی کے ساتھ جو ظلم کر ڈالا، اس کے بعد اب بھٹو صاحب کی کیا مخالفت کرنی۔ اس کے بعد کچھ عرصے کے لئے نواز شریف، اینٹی نواز شریف جذبات پیدا ہوئے، مگر نواز شریف صاحب اپنی طویل سیاسی نیٹ ورکنگ اور معاشرے کی مختلف سطحوں میںجڑیں گاڑنے کے باوجود شخصی سحر سے عاری ہیں۔ اس لئے وہ سیاست کا محور بن نہ سکے۔ پچھلے چند برسوں ، خاص طور سے عمران خان کے دھرنے کے بعد سے پاکستانی سماج اور سیاسی کلچر میں پروعمران خان ، اینٹی عمران خان تقسیم آ چکی ہے۔ پچھلے سال الیکشن میں عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفوں کو بڑا سیاسی دھچکہ پہنچایا،اس سے ان کے خلاف جذبات میںتندی، تلخی، کڑواہٹ بڑھ گئی ۔ پسند ناپسنداپنی جگہ، بہترین رویہ مگر یہی ہے کہ منصفانہ تنقید کی جائے۔ جو بات غلط ہے، وہ غلط اور درست باتوں کی اگر تحسین کرنے کی اخلاقی جرات نہیں تو پھر خاموش ہی رہ لیں۔ ہمارے بعض نامور سوشل میڈیا بلاگر اور لکھاری اکثر پاکستان کے ورلڈ کپ جیتنے کا حوالہ دیتے ہیں کہ اسی کی پاداش میں عمران خان وزیراعظم ہیں۔ طنزیہ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ نالائق ہے ، مگر وزیراعظم میں ہینڈسم شخص تو بیٹھا ہے ۔ تاثر یہ دینا مقصود ہوتا ہے کہ عمران خان کو اس کی وجاہت اور ورلڈ کپ جیتنے کی وجہ سے ووٹ ملے ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنا بے بنیاد جھوٹ کیسے بولا جا سکتا ہے؟عمران خان 92ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے، 96ء میں عمران خان نے تحریک انصاف بنائی اور 97ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ عمران خان جو ورلڈ کپ کا فاتح تھا، جو آج سے بائیس سال پہلے زیادہ وجیہہ اور جوان تھا، اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سیٹ بھی نہ ملی۔ثابت ہوگیا کہ ورلڈ کپ کی جیت اور اپنی سمارٹ نیس، خوبصورتی کی بناپر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا بلکہ رکن اسمبلی بھی نہیں بن سکتے۔ پانچ سال بعد 2002ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو ایک بار پھر زبردست شکست ہوئی، اس بار اگرچہ عمران خان گرتے پڑتے میانوالی سے ایک نشست جیت گیا۔ اگلے الیکشن میں خان نے بائیکاٹ کیا جبکہ 2013ء کے انتخابات میں اسے ستر لاکھ ووٹ ملے۔ پانچ سال بعد یہ ووٹ دوگنا سے بھی بڑھ گئے اور وہ وزیراعظم بن گیا۔اس لئے ورلڈ کپ جیت یا ہینڈسم کا طعنہ دینا تو حماقت یا بددیانتی ہے۔ عمران خان دراصل پیپلزپارٹی ، ن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن اور باہمی مک مکا کے نتیجے میں مقبول لیڈر بنے، یہ بات پسند نہ آئے، تب بھی حقیقت کو کیوں جھٹلایا جائے؟ عمران خان کے دورہ امریکہ کو لے لیں۔ یہ دورہ کئی اعتبار سے کامیاب رہا، پاکستان کی سفارتی تنہائی ختم ہوئی، امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہونے کے امکانات پیدا ہوئے،جس کے اثرات تمام عالمی فورمز پرپڑتے ہیں۔ بھارت کشمیر کے حوالے سے دبائو میں آیا جبکہ عمران خان نے غیر متوقع طور پر صدر ٹرمپ کے سامنے عمدگی سے اپنا ملکی موقف پیش کیا اور پرا عتماد انداز اپنایا۔پچھلے دو دنوں سے مگر عمران مخالف حلقے باقاعدہ خوردبین لگا کر خامیاں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بات نہیں بن رہی، مگر بے پر کی اڑانا لازم ہے۔یہ سب غیر ضروری ہے۔ عمران خان نے وہاںجلسہ میں نامناسب سخت تقریر کی۔اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ جہاں وہ درست کارڈ کھیلا، اچھے طریقے سے بات کی، اس کی ستائش کردیں یا پھر نہیں کر سکتے تو خاموش ہی رہیں۔اس حوالے سے بلاول بھٹوکا مثبت ردعمل گو حیران کن ،مگر قابل ستائش ہے۔ عمران خان نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہاتھا کہ آئی ایس آئی نے اس بارے میں اطلاع دی تھی۔بعض صحافیوں اورسوشل میڈیا لکھاریوں نے یہ نکتہ پکڑ لیاہے۔ایک نامور اینکر، صحافی نے کالم میں لکھ ڈالا کہ پھر شکیل آفریدی کو پکڑنے کا کیا جواز ہے؟وہ تو خیر اچھی طرح جانتے ہوں گے، ہر کوئی جانتا ہے کہ اسامہ بن لادن آپریشن کے بعد یہ سب بارہا چھپ چکا کہ پاکستان نے امریکہ سے انٹیلی جنس شیئرنگ میں اسامہ کے ساتھ رہنے والے الکویتی کے حوالے سے ٹِپ دی تھی۔ اس وقت شائد کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ نمبر الکویتی اور پھر اسامہ بن لادن تک لے جائے گا۔ یہ بات بہت بار آ چکی ، سٹیو کول جیسے امریکی مصنفین نے اپنی کتابوں میں لکھ ڈالا۔بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ پاکستان اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کچھ کام کررہا، کچھ سے گریز تھا۔ طالبان کو بچانا اس وقت ترجیح تھی، گلوبل ایجنڈا رکھنے والے القاعدہ جسے پاکستانی ریاست سے کوئی ہمدردی نہیں، اس کے ساتھ پاکستانی حکومت کو بھی ہمدردی نہیں تھی۔ امریکیوں کو بعض باتیں شیئر کر دی جاتیں، بعض نہیں۔ ان شیئر ہونے والی چیزوں میں سے ایک الکویتی کے بارے میں ٹِپ بھی تھی۔ جب اسامہ کلنگ آپریشن کے بعد امریکی میڈیا نے پاکستان پر سارا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی تو یہ بات ہمارے لئے دلیل کے طور پر کام آئی کہ ہم نے ہی تو الکویتی کے بارے میں ٹپ دی تھی۔یہ مسکت جواب تھا۔عمران خان کو بھی لگتا ہے اس حوالے سے جامع بریف کیا گیا، اس نے بھی فوکس نیوز کے انٹرویو اور دیگر جگہوں پر اسے عمدگی سے استعمال کیا۔ سی آئی اے اس سے مکر بھی نہیں سکتی ، اگرچہ انہیں معلوم تھا کہ یہ ادھوری، تشنہ ،نامکمل اطلاع تھی جو اتفاق سے آگے جا کر مفید بن گئی۔ گزشتہ روز سابق سی آئی اے ڈائریکٹر پیٹریاس نے بھی یہی بات کہی ہے کہ پاکستان تو خود نہیں جانتا تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں ہے، وہ ہمیں کیسے بتاتا؟ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہمارے ادارے اسامہ ہنٹ آپریشن میں ساتھ ہوتے، انہیں اسامہ کی ایبٹ آباد موجودگی کا علم ہوتا تو امریکیوں کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مدد سے خفیہ آپریشن کے ذریعے اسامہ کے بچوں کے ڈی این اے کیوں حاصل کرنے پڑتے ؟پھر وہ سب خفیہ آپریشن ہوتا ہی کیوں؟ امریکیوں کو رات کے اندھیرے میں رسک لے کر ہیلی کاپٹروں سمیت ٹیم کیوں بھیجنا پڑتی؟یہ کہنا کہ شکیل آفریدی نے بھی وہی کیا، جو پاکستانی ادارے نے کیا ، تو اسے سزا کیوں ؟ یہ بھی بیکاردلیل ہے۔ فرض کریں کہ ہمارا کوئی قومی ادارہ کسی معاملے میں سوچ سمجھ کر(مخصوص ایجنڈے کے تحت)کسی ملک کو کوئی اطلاع فراہم کرے، اس کا پیسے لے کر ملک سے غداری کرنے اور دوسرے ملک کے لئے کام کرنے والے ایجنٹ کے ساتھ موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ہمارے اداروں نے تو امریکیوں کو بہت سے غلط اطلاعات بھی دی ہوں گی، وہ امریکیوں کے بے پناہ دبائو کے باوجود طالبان کے حقانی نیٹ ورک کو آج تک بچائے رکھنے میں کامیاب رہے۔ کیا شکیل آفریدی جیسا امریکی ایجنٹ ایسا کر سکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ وہ تو تابعداری سے ہر وہ کام کرتا رہا جس کا اسے معاوضہ ملا۔اتنی سادہ بات بھی ہمارے اتنے بڑے صحافیوں، اینکروں کو سمجھ نہیں آ رہی؟ ایسے میں پھر بددیانتی کا الزام لگے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔