بدنما جمہوری تاریخ کے چہرے پر 5 فروری 2020 کی تاریخ بھی ایک اور داغ کی صورت ہمیشہ یاد رہے گی، جب 53 ووٹوں کی اکثریت نے 47 ووٹوں کی اقلیت پر اپنا آمرانہ فیصلہ مسلط کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ہم انصاف اور عدل کے کسی بھی تقاضے کو نہیں مانتے۔امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتا ہے،اس لیے ہم اس کے جرائم کے ثبوتوں کے باوجود اسے سزا دینے کی اجازت دیں گے اور نہ ہی اسے کسی مقدمے کا سامنا کرنے دیں گے۔ وہ بدستور اگلے الیکشن تک جمہوری نظام کے سب سے بڑے چیمپئین امریکہ کی کرسی صدارت پر براجمان رہے گا۔ اپنے مجرموں کو بچانا اور انہیں بے گناہ قرار دینا اور مخالفین کو مجرم قرار دے کر سزا دلوانا،جمہوری اکثریت کی صدیوں پرانی روایت چلی آرہی ہے۔ جدید جمہوری نظام کے خوشہ چین اسے تین ہزار سال قبل یونان کی شہری ریاستوں میں قائم حکومتوں کا عقلی اور عملی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ریاست ایتھنز تھی، جس کی جمہوری حکومت کے سامنے 399 قبل مسیح،سقراط کا مقدمہ پیش ہوا۔ ایتھنز کی شہری ریاست میں اقتدار کی ساری قوت اسمبلی کے پاس تھی۔ ہر آزاد شہری اسمبلی کا رکن تھا۔ ایتھنز کا عدالتی نظام جمہوری تھا۔ ملزم کو عدالت کی بجائے عوام کے اس ہجوم کے سامنے پیش کیا جاتا،جسے اسمبلی کہتے تھے۔ بالکل ویسے ہی، جیسے کل امریکی سینیٹ میں ملزم ڈونلڈ ٹرمپ کا مقدمہ پیش کیا گیا تو عوام کی یہ جمہوری عدالت جسے'' امریکی سینٹ'' کہتے ہیں اس کے خلاف الزام کی تفصیل بھی سننے کو تیار نہ تھی۔ جبکہ سقراط چونکہ ممبران اسمبلی کی نفرت کا مرکز تھا، اس لئے اسکے مقدمہ پر کئی دن مسلسل بحث ہوتی رہی۔ سقراط کو جس جمہوری عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، اسکے ارکان کی تعداد پانچ سو تھی۔انکے سامنے سقراط کی تقریر افلاطون نے معذرت نامہ (The Apology) کے عنوان سے محفوظ کردی ہے۔ اس تقریر میں سقراط نے جس طرح جمہوری نظام کو عدل و انصاف سے محروم قرار دیا ہے وہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اپنی پوری تقریر میں سقراط نے ممبران اسمبلی کو منصف کہہ کر مخاطب نہیں کیا ، بلکہ اس کے ہر فقرے کا آغاز ''اے ایتھنز والو'' سے ہوتا ہے۔ سقراط کہتا ہے، ''اے ایتھنز والو!، میرے بہت سے دشمن اور مخالف پیدا ہو چکے ہیں۔ عوام کا تعصب اور کینہ مجھے مجرم ٹھہرائے گا، یہی باتیں مجھ سے پہلے بہت سے نیک اشخاص کو مجرم ٹھہرانے کا موجب ہوئی ہیں''۔ اس کے بعد سقراط کہتا ہے ''یہ اسمبلی عدالت نہیں، ایک ہجوم ہے اور ہجوم انصاف پر نہیں تعصب پر فیصلے کرتا ہے''۔ اس کے بعد وہ جمہوری اکثریت کے مقابلے میں خدا کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے''اے ایتھنز کے رہنے والو! میں تمہاری عزت کرتا ہوں۔ مجھے تمہارا احترام ہے۔ لیکن میں تمہاری جگہ خدا کی اطاعت کروں گا اور جب تک مجھ میں زندگی اور توانائی ہے میں اس وقت تک تعلیم دینا ترک نہیں کروں گا۔ وقت آرہا ہے کہ میں تو مر جاؤں گا اور تم زندہ رہو گے۔ لیکن ان دونوں میں کون سی بات بہتر ہے، صرف خدا جانتا ہے''۔ اس نے اس تقریر میں ایک انتہائی خوبصورت بات کی، کہا '' دوستو! موت سے بچ رہنے کی نسبت بدی سے بچ جانا دشوار تر ہے، کیونکہ وہ موت سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ میں ایک پیش گوئی کرتا ہوں، میری موت کے بعد تمہیں سخت سزا ملنے والی ہے''۔ سقراط کی اس طویل تقریر کے بعد ایتھنز کی اس اسمبلی نے جو آج جمہوری نظام کا اولین مثالی ادارہ سمجھی جاتی ہے، اس نے کثرت رائے سے سقراط کے لیے موت کی سزا سنادی۔ اسے جیل سے بھاگنے کا مشورہ دیا گیا، مگراس نے تیس دن بعد زہر کا پیالا ہونٹوں سے لگا لیا۔ سقراط جمہوریت کو ایک بدترین نظامِ حکومت تصور کرتا تھا۔ افلاطون کی مشہور کتاب الجمہوریہ (The Republic) کی چھٹی کی کتاب میں سقراط کا ایک شخص ایڈمنٹس (Adeimantus) سے طویل مکالمہ ملتا ہے۔ سقراط اس مکالمے میں جمہوریت کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے ایک بحری جہاز کی مثال دیتا ہے۔ سقراط اس سے پوچھتا ہے کہ اگر تم کسی بحری سفر پر روانہ ہونے لگو تو تمہارے نزدیک اس جہاز کا انچارج کون ہونا چاہیے، کوئی ایک فرد یا وہ عوام جو قوانین اور سمندری سفر کی ضروریات سے آشنا بھی ہوں۔ایڈمنٹس کہتا ہے کہ ''عوام'' جس پر سقراط پھر سوال کرتا ہے کہ کیا ہم اس بات پر عوام سے سوال کریں یا کسی تجربہ کار سے پوچھیں کہ حکمران کون ہونا چاہیے۔ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ الیکشن میں ووٹ دینا ایک مہارت ہے۔ یہ ایک اتفاقی بے ترتیب اور بے سروپا عمل نہیں ہونا چاہیے جس طرح تمام مہارتیں سکھائی جاتی ہیں اسی طرح ووٹ یا رائے دینے کے لیے بھی عوام کیلئے مناسب تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بغیر کسی تعلیم اور مہارت کے ووٹ دینے کا حق استعمال کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی تین منزلہ بحری جہاز (Trireme) کو طوفان کے بیچ میں عوام کے ہجوم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ سقراط کہتا ہے کہ بہترین جمہوری نظام ایک ذی ہوش جمہوریت (Intellectual Democracy) ہے جبکہ موجودہ یونان میں جو جمہوریت ہے اسکے تحت ووٹ کو پیدائشی حق (Democracy by birth right) کے تصور پر استوار کیا گیا ہے۔ سقراط عام آدمی کے ووٹ دینے یا الیکشن لڑنے کی مثال کو ایک ڈاکٹر اور مٹھائی والے کے درمیان الیکشن سے واضح کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مٹھائی والا اپنے مخالف ڈاکٹر امیدوار کے بارے میں کہے گایہ شخص تم پر بہت ظلم کرتا ہے، کڑوی کسیلی اشیاء کھانے کو دیتا ہے، لوگوں کو اپنی مرضی کے وقت اور مرضی کے مطابق کھانے اور پینے سے منع کرتا ہے۔اسکے برعکس،جیسے کھانے میں کھلا سکتا ہوں وہ تمہیں ویسے کھانے نہیں کھلا سکتا، اور وہ میرے جیسی میٹھی باتیں بھی نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سقراط کہتا ہے کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ ڈاکٹر اس کا کوئی مناسب جواب دے سکے گا،ایسا جواب جو لوگوں کو پسند بھی آئے۔ ڈاکٹر یقینا یہ کہے گا کہ ''میں تمہیں جو مشکل میں ڈالتا ہوں یا جو کچھ تمہاری خواہشات کے برعکس کرنے کیلئے کہتا ہوں توایسا کرتے ہوئے میں در اصل تمہاری مدد کر رہا ہوتا ہوں''۔ سقراط کہتا ہے اس جواب کے بعد ووٹروں میں کتنا اور کیسا شدید رد عمل پیدا ہوگا تم یقیناً جانتے ہو''۔ جمہوریت کے بارے میں سقراط نے وہی بات کی ہے جسے اقبال نے اپنے اس شعر میں سمویا ہے گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شد کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید (جمہوری نظام سے پرہیز کر اور کسی تجربہ کار انسان کا غلام ہو جا۔ کیونکہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی سوچ و فکر پیدا نہیں ہوسکتی)۔ یہ آج کا نہیں تین ہزار سال کا رونا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو قابل مواخذہ قرار دینے والے ایوان نمائندگان کے ارکان اسے اس وجہ سے مجرم ثابت کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ان کی مخالف پارٹی سے تعلق رکھتا تھا ۔ ان کے پاس 197 کے مقابلے 230 کی اکثریت تھی اور انہوں نے اپنے مخالف ٹرمپ پر مقدمہ چلانے کی سفارش کردی۔ لیکن اعلی اور برتر درجے کے ارکان یعنی سینٹ کے ممبران نے47 کے مقابلے میں 53 ووٹوں کی اکثریت کی آمریت سے نچلے ایوان کا فیصلہ مسترد بھی کردیا اور ٹرمپ کو انصاف کے کٹہرے سے بھی آزاد کردیا۔ یہ ہے جمہوریت کا عروج اور انصاف کا زوال۔ اگر عام آدمی کی اکثریت آپ کے ساتھ ہے تو آپ نریندر مودی اور ڈونلڈٹرمپ کی طرح جو چاہیں کر گزریں اور اگر عام آدمی کی اقلیت آپ کو پسند کرتی ہے تو آپ کا سچ، ایمانداری، نیکی، خلوص اور اعلی کردار سب قابل نفرین ہے۔ اس لئے کہ آپ ایک ہارے ہوئے انسان ہو،آپکے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔ اسقدر ظلم تو چنگیز اور ہلاکو کے ادوار میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر