توازن کے دائرے سے باہر نکلتے ہی زندگی بے ترتیب ہونے لگتی۔ شب و روز کے دائرے سے قرینہ‘ ترتیب‘ اور ترجیحات نکل جائیں تو یہی زندگی ایک مکمل الجھائو ‘ بکھرائو(Total Mess)ایک Chaos کی صورت نظر آتی ہے۔ توازن اور میانہ روی ہر صورت میں زندگی کو سنبھالا دیتی ہے زندگی کو ایک ترتیب کے دائرے میں رکھتی ہے۔ اسی لیے ہمارا دین بھی ہمیں میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ کسی بھی چیز کی Obsessionیا اس کا خبط زندگی میں صحت مند رویہ نہیں ہے آج ہی ایک خبر پڑھی کہ چین میں ایک خاتون کو موبائل فون پر گیم کھیلنے کا ایسا خبط سوار ہوا کہ اس نے اپنی ایک ہفتے کی چھٹیاں صرف اور صرف موبائل گیم کھیلنے میں گزاریں۔ گھنٹوں کے حساب سے اس کے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں سمارٹ فون کی سکرین پر ہلتی رہیں اور بالآخر اس خبط اور ایڈکشن نے اس کے سیدھے ہاتھ کو مفلوج کر دیا۔ شاید ضرورت سے زیادہ ہی اس کا استعمال کر لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کی مصروفیات اب ہمارے ہاں بھی ایک خبط اور نشے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ ہماری قوم بھی تصاویر کھینچنے اور اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔لوگ کہیں ملنے جائیں تو ملتے بعد میں ہیں تصویریں پہلے کھینچتے ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا سجا کر اس کی کئی زاویوں سے تصاویر پہلے لی جاتی ہیں تاکہ اس کو شیئر کر کے زیادہ سے زیادہ لائکس سمیٹے جائیں۔ کبھی کبھار تو چلو پھر بھی ٹھیک ہے کہ کسی دعوت کے کھانے کی یادگار تصاویر آپ نے بنا لیں لیکن یہاں تو اس خبط کی صورت یہ ہو چکی ہے کہ جاتے جاتے راستے میں ایک قلفی بھی کھا لی تو اس کی بھی تصویر سوشل میڈیا پر لگا دی جاتی ہے کہ احباب اس منظر سے محروم نہ رہیں۔ سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کا بھی لوگوں میں ایک خبط پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے لکھا کہ میرے والد ابھی ابھی باتھ روم میں گر گئے ہیں احباب دعا کریں اس پر ایک دلچسپ تبصرہ یہ آیا کہ بھائی آپ سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کی بجائے اپنے والد صاحب کو جا کر اٹھائیں اور ان کی کوئی مرہم پٹی کریں۔ بات تو یہ خدا لگتی ہے کہ والد صاحب باتھ روم میں گر گئے ہیں تو آپ سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے بیٹھ گئے ہیں۔ اسی طرح ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ میری والدہ شدید بیمار ہیں ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا ہے احباب دعا کریں۔ لوگ حسب عادت مختلف پوسٹوں کو نظر سے گزارتے ہوئے یہ پوسٹ پڑھیں گے تو یقینا اس پر روایتی سے الفاظ لکھ دیں گے۔ جو کہ دعا کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ دعا تو ایک کیفیت کا نام ہے۔ انسان کی طلب کا ایک مقام ہے۔ جس میں آپ خالق و مالک کائنات کے سامنے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر دعائوں کی استدعا سے بہتر ہے کہ خود اپنے رب سے دعا مانگیں۔ دعا مانگنے کا بہترین ٹائم آپ سوشل میڈیا پر برباد کر دیتے ہیں۔ میں جب ایسی پوسٹیں پڑھتی ہوں تو کمنٹس نہیں کرتی ہاں دعا مانگنے کے وقت پر اس بیمار کے لیے پرخلوص دعا ضرور کرتی ہوں۔ میں واپس اپنے اس موضوع پر آتی ہوں سوشل میڈیا ہماری Obsessionکس حد تک بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے میرا Love & hateتعلق ہے۔ یعنی کبھی اس کو استعمال کرنا اچھا بھی لگتا ہے۔ لیکن دل پھر جلد ہی اقبال کا شعر گنگنانے لگتا ہے کہ دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب‘‘ روایتی جملے‘ روایتی پوسٹیں‘ قسم قسم کی سیلفیاں‘ ذاتی پروجیکشن کے بہانے ایک ہی طرح کے تعریفی جملے۔ لکھ لکھ کر انگلیاں بھی تھک جاتی ہیں۔ اس پر میرے اور بھی کئی طرح کے تحفظات ہیں۔ ہم جس کو سوشل میڈیا پر ایڈکر لیں وہ سوشل میڈیا کی زبان میں فرینڈ کہلاتا ہے۔ اس فرینڈ کی تعریف کیا ہے یہ فرینڈ دوست کے روایتی معنوں میں واقعی ہی دوست ہوتا ہے؟ میرا خیال ہے ہرگز نہیں۔ دوست تو ہر کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ کجا کہ ایسے لوگ دوست کا درجہ رکھیں جنہیں آپ حقیقی زندگی میں ملے بھی نہ ہوں۔ سو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سوشل میڈیا پر فرینڈ کی حیثیت بس اتنی ہی ہے جب آپ چاہیں ’’ان فرینڈ‘‘ کر دیں۔ کیا اپنے حقیقی دوستوں کو ایسے ان فرینڈ کر سکتے ہیں۔ نہیں نا! المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اتنی سی بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔اچھے خاصے سمجھ دار لوگ اس کامن سینس سے عاری ہیں۔ اسی لیے میں نے لوگوں کو ’’ایڈ‘‘ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے محتاط تھی اب کچھ زیادہ ہی محتاط ہوں۔ سوشل میڈیا کا ایک کام آپ کو لوگوں کے جنم دن کی یاد دہانی کروانا بھی ہے۔ جنم دن کی مبارک آپ اپنے انہی دوستوں کو دے سکتے ہیں جو واقعی آپ کے دوست ہیں۔ آپ کا ان سے تعلق کا ایسا رشتہ ہے کہ آپ انہیں سالگرہ مبارک کہیں۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے مگر یہاں لوگ اس خبط میں مبتلا ہیں کہ اگر ان کی سالگرہ ہے اور آپ نے ان کو HBDنہیں کیا تو پھر وہ آپ کو یاد دہانی کے لیے بار بار سالگرہ والی پوسٹ ان باکس کریں گے۔ ایسے لوگوں سے مجھے یہی کہنا ہے کہ اگر کوئی آپ کو HBDکہنے سے محروم رہ گیا ہے تو براہ کرم اسے محروم ہی رہنے دیں کیونکہ یہ محرومی کسی بے خیالی کی یا کوتاہی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ محرومی برضا و رغبت حاصل کی گئی ہے۔ براہ کرم اپنا اور کسی اور کا وقت ان فالتو چیزوں میں برباد نہ کریں۔ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں کس قدر گھس آیا ہے اس پر اس وقت تک بات مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ہم سیلفی سینڈروم کا تذکرہ نہ کریں۔ سیلفی سینڈ روم اب ایک جانی مانی ذہنی بیماری کا نام ہے۔ اس سینڈروم نے کئی لوگوں کی زندگیاں لے لی ہیں۔ آئے روز ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں شخص سیلفی لیتے ہوئے دریا میں گر گیا ۔ فلاں ٹرین کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے ٹرین تلے آ گیا۔ کچھ عرصہ پہلے کی خبر ہے کہ لاہور کے کسی کالج کا ٹرپ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔ وہاں رسیوں کا پل ٹوٹ گیا‘ سیلفی کا خبط کئی کی جان لے گیا۔ اس میں کیا شک کہ سوشل میڈیا جدید طرز زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اب جس کے بغیر ہماری زندگیاں مکمل نہیں ہوتیں لیکن سوشل میڈیا کی قیمت پر ہم زندگی کی اصل روح‘ اصل سچائی‘ اس کے اصل چہرے سے دور ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا انسانوں کو جوڑنے کے مقصد سے بنا۔ مگر اب یہی سوشل میڈیا انسان کے انسان سے اصل تعلق اور رشتے کے درمیان ایک دیوار بن گیا ہے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں گفتگو نہیں کر پاتے کہ ہر کوئی ان میں سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھا ہوا۔ سکرین پر نظر جمائے میکانکی انداز میں لاتعداد پوسٹوں کو لائک اور کمنٹ کرنے کی بے مصرف مصروفیت سے دوچار ہے۔ سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے۔ ایک ضرورت ہے۔اسے استعمال ضرور کریں لیکن توازن کے دائرے میں رہ کر!