میرے قریبی دوست سعادت اللہ خان، سابق انسپکٹر جنرل پولیس (پنجاب) گورنمنٹ کالج لاہور میںمیرے کالج فیلو تھے۔ ان کے" عہدِ حکومت" میں یعنی جب وُہ آئی جی تھے، میں نے ایک کالم لکھا تھا جو قارئین اور احباب کو بہت پسند آیاتھا۔ یہ کالم پولیس افسروں کی توند وں کے خلاف تھا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ " اہلِ توند" پولیس افسر بھی اِس کالم سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ ملاحظہ فرمائیں: ایک بار یوں ہوا کہ پنجاب کے آئی۔جی ۔ (پولیس ) نے سوچا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر پولیس افسروں کی بڑھی ُہوئی توندیں سمٹ جائیں اَور اُن کے بے ڈھب جسم سمارٹ ہو جائیں۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ شتر ِ بے مہار قسم کی توندیں محکمے کی بدنامی کا باعث بن رہی تھیں۔ چنانچہ اُنھوں نے ’’توند یافتہ‘‘ پولیس ملازمین کو نوٹس دیا کہ ُوہ ایک ماہ کے اَندر اَندر توندوں کا رقبہ، گھیرا اور سائز کم کر لیںورنہ اُنھیں ’’مع توند‘‘ گھر بھیج دیا جائے گا۔ اِس تنبیہ ‘ کے بعد توندکے حامل ملازمین (وقتی طور پر) غریب عوام کے بجائے اپنی اپنی توند کو اَذ ّیت کا نشانہ بنانے لگے ۔ اِس سے یہ فائدہ تو ضرور ُہوا کہ تھانوں میں عوام پر ظلم کی مقدار کم ہو گئی لیکن توندوں کے رقبے میں کوئی خاص کمی واقع نہ ہوئی۔ اِس ُصورتِ حال سے پریشان ہوکر اُن اہل کاروںنے آئی جی صاحب سے اپیل کی کہ اُنھیں ’’توند کیس‘‘ سے نبٹنے کے لیے مزید وقت دیا جائے کیونکہ یہ کیس اِس قدر پیچیدہ ہے کہ اِتنی کم مد ّت میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ آئی جی صاحب نے اُن کی درخواست قبول کرتے ہوئے توندوں کو سمیٹنے کے لیے مزید پندرہ د ِن کی مہلت دے دی۔ اُنہی دنوں ایک ر ِشتے دار ڈی ایس پی سے میری ملاقات ہوئی ‘ جن کی وجہ ‘ شہرت توند ہی تھی۔ باتوں باتوں میں جب توند کا ذ ِکر چلا تو َمیں نے اُمید ظاہر کی کہ اللہ نے چاہا تو اُن کی توند عنقریب پسپائی اِختیار کر لے گی؛ لیکن اُن کا جواب سن کر میں پریشان ہو گیا۔ کہنے لگے: " لگتا ہے آئی جی صاحب ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔ آپ ہی اِنصاف سے کہیے کہ جس توند کی تعمیر و ترقی میں سالہا سال کا عرصہ لگا ہو‘ کیاوہ چند ہفتوں میں مسمار ہو سکتی ہے؟ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اِس پر ہینڈ گرنیڈ مار دیں۔ میں یکم ؍جون سے اِس کوشش میں ُہوں کہ کسی نہ کسی طرح توند کم کر ُلوں۔ صبح اُٹھ کر پارک میں جاتا ُہوں اور چار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے َپیدل َدوڑ لگاتا ُہوں۔ کسی نے سائیکل چلانے کامشورہ دیا تھا جس پرعمل کرتے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کی سائیکلیں توڑ ُچکا ُہوں۔ ایک مشورہ یہ ِملا تھا کہ بیٹھکیں لگایا کرو۔ پانچویں بیٹھک پر َمیں اَیسا بیٹھا کہ پھر اُٹھ نہ سکا اَور اوندھے ُمنہ ِگر پڑا۔ ُوہ تو بھلا ہو چند َنوجوانوں کا جنھوں نے ّہمت کر کے مجھے اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔ میں نے ایک ِجم (GYM)بھی جائن کر رکھی ہے جس کا مالک مجھ سے تین ُگنا رقم چارج کرتا ہے: کہتا ہے کہ " آپ تھری اِن وَن ہیںــ" اِن سب کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صرف دواِنچ کامیابی نصیب ُہوئی ہے جبکہ میری منزل ابھی اٹھارہ اِنچ دُور ہے۔ بتائیے میں اِتنے کم وقت میں اِتنا لمبا فا ِصلہ کیونکر طے کر سکتا ہوں! آئی جی صاحب کو چاہیے کہ ہمیں کم اَز کم دوماہ کی مہلت اَور دیں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ پیٹ کم کرنے کی کوشش میں اگر َمیں اللہ کو پیارا نہ ہو گیا تو میری توند راہِ فرار اختیار کر لے گی۔" اُن کی اَلمناک، دہشت ناک اور دردناک داستان ُسن کرمیں حیران ُہوا کہ پولیس والوں کی زبان میں اَدبی الفاظ کا ذخیرہ کیسے داخل ہو گیا۔ اِس نکتے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے جب میں نے اُن سے ُپوچھا کہ یہ ہُنر اُنہوں نے کہاں سے سیکھا ہے تومسکراتے ہوئے بولے: "آپ لوگوں کے کالم پڑھ کر کچھ نہ کچھ بولنا تو آ ہی گیا ہے۔" یہ تو خیر ایسے ہی ایک بات درمیان میں آگئی۔ ہمارا اصل موضوع ’’توند‘‘ تھا۔ چنانچہ میں نے کہا: "شاہ جی! آپ اپنی خوراک کیوں کم نہیں کرتے؟ ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ جب ُبھوک لگی ہو اَور جسم کو خوراک نہ ملے تو ایسے نازک موقعوں پر چربی اپنی قربانی دے کر‘ یعنی ُگھل کر‘ جسم کی ضرورت کو ُپورا کر دیتی ہے۔ آپ میں تو ماشاء اللہ اِتنی چربی ہے کہ بغیر کچھ کھائے صرف پانی کے سہارے چار پانچ ماہ نکال سکتے ہیں!" "آپ نے کی نا پھر پروفیسروں والی بات ! مجھے تو ایک وقت کا کھانا نہ ملے تو جان لبوں پر آ جاتی ہے اَور میں ہر شخص کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگتا ُہوں ۔ چربی ُگھلے نہ ُگھلے‘ مجھے اِس سے کیا! باقی یہ ہے کہ میں نے اپنی خوراک میں کافی کمی کر دی ہے۔ ناشتے میں تین پراٹھے اَور تین ّلسی کے گلاس کم کر دیے ہیں۔ لنچ میں چار روٹیاں اَور ایک عدد روسٹ چکن کم کر دیا ہے۔ رات کو میں کھاتا ہی نہیں‘ صرف پیتا ُہوں۔اَب اِس سے زیادہ کمی اَور کیا ہو سکتی ہے؟ آ ِخر اِنسان کو ز ِندہ بھی تو َ رہنا ہے۔ بطور پولیس افسر‘ میرے کچھ فرائض بھی ہیں… اُنھیں بھی ُپورا کرنا ہوتا ہے۔ سچ ُپوچھیں تو د ِن ہنسی خوشی گزر رہے تھے‘ آئی جی صاحب نے ہماری راتوں کی نیند برباد کر دی ہے"۔ "برباد نہیں حرام ! شاہ جی" میں نے تصحیح کی۔ "ایک ہی بات ہے پروفیسر صاحب" انھوں نے قدرے تلخی سے جواب دیا۔ "لگتا ہے حرام کا لفظ آپ کو پسند نہیں۔" "جی ہاں! " اُن کے لہجے کی تلخی مزید بڑھ گئی۔ "شاہ جی معافی چاہتا ُہوں…آپ غالباً ُبرا مان گئے!" " او نئیں جی، ُبرا کیا ماننا ہے… مجھے پتا ہے آپ مذاقیہ باتیںلکھتے ہیں اَور ہم جیسوں کو رگڑتے رہتے ہیں!" "شاہ جی یہ کیاکہہ رہے ہیں آپ! مجھے تو آپ سے ہمدردی ہے۔ سوچتا ہوںآئی جی صاحب کی دی ہوئی ڈیڈ لائن تیزی سے قریب آ رہی ہے جبکہ توندیں ٹس سے َمس نہیں ہو رہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ توند کا اُونٹ کس کر َوٹ بیٹھے گا!" "اجی اُونٹ بیٹھے نہ بیٹھے‘ یہ کم بخت توند تو کسی کر َوٹ بیٹھے؛ اَور یہ جو آئی جی صاحب نے ڈیڈ لائن دے رکھی ہے‘ یہ ہمارے لیے دراصل ڈیتھ لائن ہے۔ اللہ اُن کے د ِل میں رحم ڈالے!" میں نے بلند آواز میں ’’آمین‘‘ کہا اَور اِجازت لے کر چلا آ یا۔ ٭٭٭٭٭