توہین مذہب و رسالت مسلمانوں کے نزدیک صرف شرارت نہیں ہے‘ یہ ایسی شرانگیزی اور فساد فی الارض ہے جو کرہ ارض کو خون میں نہلا اور جلا کر راکھ کر دے گا۔ فرانس کے صدر نے توہین آمیز خاکوں کے بارے تعصب کا اظہار کر کے پوری امت مسلمہ کو افسردہ اور اس کے نوجوانوں کو مشتعل کر دیا ہے‘ عبداللہ کی شہادت رائیگاں ہے نہ عمران خان‘ طیب اردگان اور مہاتیر محمد کی آواز صدا بصحرا۔ ان کی آواز دور تک اور غور سے سنی جا رہی ہے اور دوسری طرف سے بڑا حوصلہ افزا جواب آیا ہے جس سے امیدیں روشن ہوئیں اور میکرون جیسے سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ یہ اونچی لے کی طاقتور آوازیں ہماری آواز میں آن شامل ہوئی ہیں۔ ان میں پہلی اور سب سے طاقتور آواز جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کی ہے‘ وہ کہتی ہیں: ’’ہمارے ملک میں ان تمام لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے جو اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتے۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ اگر آپ کوئی ٹھوس بات کہتے ہیں تو آپ کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کی رائے کو مسترد کرنے سے اس کی وقعت صفر نہیں ہو جائے گی تاہم اظہار رائے کی آزادی کی محدودات ہیں۔ جہاں سے نفرت کی حد شروع ہو جائے اظہار رائے کی آزادی وہاں آ کر رک جاتی ہے ،جہاں لوگوں کا وقار دائو پر لگا ہو وہاں اظہار رائے کی آزادی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایوان انتہا پسندی پر مبنی خیالات کی ضرور مخالفت کرے گا۔ دوسری صورت میں ہمارا سماج ایک آزاد معاشرہ نہیں رہ پائے گا جیساکہ پہلے آزاد تھا۔‘‘ ایوان میں پرجوش تالیوں اور ڈسک بجانے کی پرشور آواز پوری قوم کے عزم کا اظہار تھا‘ والہانہ اظہار، مسلمانوں کے حوصلہ افزا اور اپنی قوم کے لیے لائحہ عمل۔ دوسری آواز کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی ہے۔ انہوں نے کہا؛ اظہار رائے کی حدود ضروری ہیں۔ الفاظ و اعمال کے دوسروں پر اثرات کا علم ہونا چاہیے‘ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ غیر ضروری طور پر لوگوں کی دل آزاری نہ ہو‘ آزادی اظہار رائے کا دفاع کریں گے مگر یہ حدود کے بغیر نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے لیے احترام کے ساتھ کام کرنا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ غیر ضروری طور پر لوگوں کی دل آزاری نہ ہو۔ ان پیچیدہ مسائل پر ذمہ داری کے ساتھ بات چیت کے لیے معاشرہ تیار ہے۔ فن لینڈ کے وزیر خارجہ پیکا ہاوستو نے کہا: ’’مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب ہم سیاہ فام افراد کا مذاق اڑتے ہیں تو اس عمل کو نسل پرستی کہتے ہیں۔ جب ہم یہودیوں کی تحقیر کریں تو اسے صیہونی مخالف کہا جاتا ہے۔ جب عورتوں کی توہین کریں تو اسے صنفی امتیاز کہتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کی تحقیر کریں تو ہم اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام کیوں دے دیتے ہیں۔‘‘ یورپ اور عیسائی دنیا کے بڑے رہنمائوں کے تاثرات کے بعد عمر رسیدہ سفید فام فرانسیسی خاتون مسز مریم پٹرونین اپنے صدر امینئول میکرون سے ان لفظوں میں مخاطب ہیں: ’’ مسٹر میکرون! ان لوگوں پر سلامتی ہو جنہوں نے ہدایت پر عمل کیا۔ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ اس بات پر حیران ہورہے ہیں کہ خالص سفید نسل کیتھولک عیسائی فرانسیسی عورت ’’سوفی پٹرنین‘‘ نے 75 سال کی عیسائیت کے بعد کیوں اسلام قبول کیا ہے؟ اور وہ بھی مسلمانوں میں چار سال قید کے دوران۔ مسٹر میکرون! میں آپ کے لیے چیزوں کو آسان بنا دیتی ہوں۔ ہاں‘ مسلمانوں کی قید میں تھی لیکن انہوں نے کبھی مجھے بری نظر سے دیکھا نہ ہاتھ لگایا۔ میرے ساتھ ان کا سلوک پروقار اور احترام کیساتھ تھا‘ وہ وسائل کی کمی کے باوجود مجھے کھانے پینے کی پیشکش کرتے اور مجھ کو خود پر ترجیح دیتے۔ انہوں نے ہمیشہ میری رازداری کا احترام کیا‘ کبھی کسی نے مجھے زبانی یا جسمانی ایذا رسانی کا نشانہ نہیں بنایا۔ انہوں نے میرے دین حضرت عیسیٰ اور کنواری مریم کی کبھی توہین نہیں کی جس طرح آپ حضرت محمدؐ کے ساتھ کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھ پر اسلام مسلط نہیں کیا لیکن میں نے لوگوں میں ایسا اخلاق دیکھا کہ وہ خود کو پانی کے ساتھ پاک کرتے اور اللہ کے سامنے پانچ مرتبہ نماز کے لیے جھکتے اور ماہ رمضان کے روزے رکھتے۔ مسٹر میکرون! افریقہ کے ملک ’’مالی‘‘ کے مسلمان غریب ہیں اور ان کا ملک بھی غریب ہے‘ یہاں ایفل ٹاور نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہماری فرانسیسی خوشبوئوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں لیکن وہ ہمارے مقابلے میں صاف ستھرے اور مخلص لوگ ہیں۔ ان کے پاس آرام دہ کاریں نہیں ہیں نہ ہی اونچے محلوں میں ان کی رہائش۔ لیکن وہ بادلوں کی طرح پاکیزہ اور ان کے ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ مسٹر میکرون! کیا آپ نے اپنی زندگی میں قرآن کی تلاوت سنی ہے؟ جب وہ صحیح اور رات کے وقت اپنی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں؟ یہ کتنا خوبصورت اور دلکش منظر ہے‘ تلاوت سن کر جسم کانپ اٹھتا اور روح طمانیت محسوس کرتی ہے۔ وہ اسے حفظ کرتے ہیں‘ یہ کوئی انسانی تقریر نہیں ہے بلکہ آسمانوں سے اترا لاہوتی راگ ہے‘ وہ صبح اور رات کو اس کی تسبیح کرتے ہیں‘ کیا آپ نے اپنی زندگی میں خدا کے لیے ایک سجدہ کیا؟ اور آپ کی پیشانی نے کبھی زمین کو چھوا ہے؟ آپ نے کبھی سجدے میں اپنے پروردگار سے سرگوشی کی اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کیا ہے جیسے کہ وہ کرتے ہیں؟ کیا کبھی آپ کو خدا کی قربت کا احساس ہوا ہے؟ مسٹر میکرون! ان کی عورتیں تارکول کی طرح کالی ہیں لیکن ان کے دل دودھ کی طرح سفید۔ وہ سادہ لباس پہنتی ہیں لیکن اپنے مردوں کی نظروں میں وہ سب سے خوبصورت ہیں۔ وہ غیر ملکی مردوں کے ساتھ گھل مل نہیں جاتیں۔ انہیں مرد پریشان نہیں کرتے‘ کوئی شخص شوہر کی عدم موجودگی میں کسی کے گھر داخل نہیں ہوتا‘ وہ شراب نہیں پیتے‘ جوا نہیں کھیلتے اور نہ زنا کے قریب جاتے ہیں۔ مسلمان تمام نبیوں حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں ہم سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور ان کی والدہ مریم سے بے حد محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ مسیح کو ہم سے زیادہ کیسے پسند کرتے ہیں۔ ہاں‘ وہ خداوند مسیح کو ہم سے زیادہ پیار کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک نے مسیح کے نام پر بے گناہوں کا خون بہایا ہے‘ ملک ویران کئے ہیں اور ان کی دولت لوٹی ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک کے وسائل سے لطف اٹھاتے اور ان کے حکمرانوں سے مختلف طریقوں پر خراج وصول کرتے ہیں۔ ہم تجارتی اور صارفین کے منصوبے مسلط رکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کرپاتے۔ ہم ان میں بغاوت پھیلاتے اور ایک دوسرے کو مارنے کے لیے انہیں اسلحہ بیچتے ہیں اور پھر ہم انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں لیکن انہوں نے مسیح کی اخلاقیات کے ساتھ مجھے اور دیگر یرغمالیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ہم گرجا گھروں میں سیکھا تو کرتے تھے لیکن کبھی اس کا اطلاق نہیں کیا۔ میں نے’’مالی‘‘میں اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تاکہ مجھ سے یہ نہ کہا جائے کہ میں نے جبر کی وجہ سے اسلام قبول کرلیا۔ میں نے فرانس پہنچنے کے بعد اپنی سرزمین پر آزادی کے ساتھ قبول اسلام کا اعلان کیا۔ میں اب فرانس کو اس کی دل کشی اور خوبصورتی کے ساتھ نہیں دیکھتی‘ غریب مالی زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے واپس آنے کا فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا کہ اپنے اہل خانہ اور پیاروں کو اسلام کی دعوت دوں کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ وہ اس مٹھاس کا مزہ چکھیں جو میں نے اکیلے عبادت سے چکھا ہے۔ اس کے لیے عبادت کروں جو رحمن ہے‘ رحیم ہے اور دنیا و آخرت میں ہماری بھلائی کا آرزومند۔ اب میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتی ہوں جو حضرت آدم ؑ کے زمانے سے تمام انبیاء اور رسولوں کا پیغام ہے‘ میں سلامتی کی دعا کے ساتھ رخصت ہوتی ہوں اور ان کو سلام ہو جو ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ یورپ میں اٹھنے والی یہ آوازیں مسلمان رہنمائوں کی آواز میں مل کر کہیں زیادہ توانا اور پراثر بن جاتی ہے۔ ان کے ہم آہنگ ہونے سے عالمی اداروں میں اشتعال انگیزی کے خلاف رہنما اصول طے کرنے میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ چنانچہ مسلم رہنمائوں کو جلد ہی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔