خیال تھا کہ نئے سال کی خوشی میں آئی ۔جی (پولیس ) کی طرف سے اُن اہل کاروں کو خصوصی انعامات اور اعزازات سے نوازا جائے گا جنھوں نے سال 2019 ء میں بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی طرف سے ان اہل کاروں کو جن کی توندیں بڑھی ہوئی ہیں، ایک سخت اور نا پسندیدہ وارننگ دے دی گئی ہے جو کچھ یوں ہے کہ توند یافتہ پولیس اہل کار جب تک اپنی توندوں سے نجات حاصل نہیں کر لیتے، اُنھیں فیلڈ میں تعینات نہیں کیا جائے گا۔ پولیس اہل کاروں کی توندوں کا مسئلہ ماضی میںبھی کئی بار سامنے آچکا ہے اور موٹے اہل کاروں کو وارننگ بھی ایشوہوتی رہی ہے لیکن نہ مسئلہ حل ہُوا نہ توندیں حل ہوئیں۔ بلکہ ھل من مزید کے مصداق توندوں نے ترقی کا سفر جاری رکھا اور وارننگ ایشو کرنے والے افسران کو بھی ان وسیع و عریض توندوں سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ 1984ء کے لگ بھگ برادرم سعادت اللہ خان لاہور کے ڈی۔ آئی ۔جی تھے۔ اُنھیں موٹی توندوں سے سخت الرجی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ موٹی توند والے پولیس اہلکار محکمے کی رُسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ خانصاحب نے فیصلہ کیا کہ کسی غیر ملکی شخصیت کی آمد پر موٹے پولیس افسران کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے اور جب تک وُہ غیر ملکی شخصیت پاکستان میں رہے، ان موٹے پولیس افسروں کو تھانے میں بند رکھا جائے۔ انھوں نے اپنے احکامات میں یہ بھی کہا تھا کہ پولیس اہل کار وں کے بڑھے ہوئے پیٹ کو کم کرنے کے لئے ان سے زیادہ سے زیادہ جسمانی مشقت لی جائے۔ یہ مشقت اُس مشقت کے علاوہ ہوگی جو اُنھیں زیرِ حراست ملزموں کا بھرکس نکالنے کے لئے کرنی پڑتی ہے یا چوروں ، ڈاکو وٗں اور دہشت گردوں کو دیکھ کر بھاگنے میں کرنی پڑتی ہے۔ اُنھوں نے یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ موٹی توند والے تھانیداروں کی فہرست جلد از جلد ان تک پہنچا دی جائے تاکہ ان کی توندوں کو صفحئہ ہستی سے غائب کرنے کے مرحلہ وار پروگرام پر عمل کیا جاسکے۔ سید محمد یوسف شیرازی (مرحوم) نے جو پولیس میں اے آئی جی تھے۔ ایک بار یہ دِل چسپ قِصّہ سُنایا کہ ایک پولیس پارٹی کا ڈاکوئوں کے ایک خطرناک گروہ سے اچانک آمنا سامنا ہوگیا۔ ڈاکوئوں نے پوزیشن سنبھال لی اور پولیس سے مقابلہ شروع کر دیا۔ دونوں اطراف سے گولیوں کا تبادلہ ہونے لگا ۔ ان ڈاکوئوں کی دہشت اتنی زیادہ تھی کہ پولیس کے اہل کار ایک ایک کر کے جان بچا کر بھاگ گئے لیکن ایک تھانیدار اپنی جگہ چٹان کی طرح ڈٹا رہا اور مسلسل فائر کرتا رہا۔ اس کی گولیوں سے چار ڈاکو ہلاک ہوگئے اور باقی کے بھاگ گئے۔ اُس بہادر تھانیدار کا کارنامہ اخبارات میں شہ سُرخیوں کے ساتھ چھپا ۔آئی ۔جی پولیس نے اُسے نقد انعام، ترقّی اور تعریفی سند سے نوازا۔ اگلے روز ایک اخباری نمائندہ اس کا انٹرویو لینے آیا۔ اُس نے پوچھا۔ " تھانیدار صاحب! جب آپ کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے آپ کا ساتھ چھوڑ گئے تو وہ کونسا جذبہ تھاجس کے زیرِ اثر آپ نے بھاگنے کی کوشش نہ کی۔" یہ سُن کر تھانیدار صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھا ۔ پھر سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے۔ "بھاگنے کا خیال میرے ذہن میں سب سے پہلے آیا تھا لیکن آپ میری توند دیکھ رہے ہیں۔ اس توند کے ساتھ تو چلنا پھِرنا مشکل ہے، بھاگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ " اِس واقعے سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ موٹی توند کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ اگر مزید سوچ بچار کیا جائے تو بھاری بھر کم توند کے کئی اور تعمیری پہلو بھی سامنے آسکتے ہیں۔ مثلاً یہ پہلو کیا کم تعمیر ی ہے کہ موٹی توند بذاتِ خود فنِ تعمیر کا جیتا جاگتا اور مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ اِس کی گولائی اِس قدر متناسب اور دلآویز ہوتی ہے کہ کیا کسی عمارت کا گنبد ہوگا اور پھر موٹی توند کی تعمیر ہر کَس و ناکَس کا کام نہیں۔ اِس کے لئے پہلے تو پولیس کی ملازمت اختیار کر کے زمانے بھر کی نا پسندیدگی مول لینا پڑتی ہے۔ جائز کمائی سے بالعموم توند کی تعمیر نہیں ہوتی۔ مجبوراً وہ مال بھی کھانا پڑتا ہے جسے ہمارے معاشرے میں جائز نہیں سمجھا جاتا۔ اِس کے علاوہ سینکڑوں تیِتر ، بٹیر ، مُرغے اور بکرے باقاعدگی سے توند میں ڈال کر بغیر ڈکار لئے ہضم کرنا پڑتے ہیں اور پھر مسلسل کئی سال تک بیڈ ریسٹ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی تمام فرائض ِ منصبی تھانے میں چارپائی پر بیٹھ کر یا لیٹ کر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ موٹی توند کی تعمیر کے لیے یتیموں کی سِسکیوں ، بیوائوں کی آہوں او رمظلوموں کی چیخوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے ، جنھیں حاصل کرنے کے لیے ضمیر کا گلا گھونٹنے جیسا تکلیف دہ کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ غرض ایک لمبے عرصے تک شب و رو ز کی ریاضت اور محنت کے بعد کہیں جا کر توند کی شکل نظر آتی ہے۔ اِس موقعے پر مجھے ایک سابقہ آئی۔جی پولیس طارق سلیم ڈوگر یاد آرہے ہیں جنھیں ریٹائر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہُوا۔ طارق سلیم ایک وجیہہ اور سمارٹ پولیس افسر تھے۔ اُنہیں بھی توند بردار اہل کار سخت ناپسند تھے۔ اُنھوں نے اپنے پی۔اے سے کہہ رکھا تھا کہ اگر کوئی موٹی توند ولا اہل کار مجھ سے ملاقات کی غرض سے آئے تو اُسے میرے کمرے میں مت بھیجنا۔ بلکہ ٹیلی فون پر بات کروا دینا ۔ چنانچہ ایسے ہی ہوتا رہا۔ اگر پولیس حکّام توندوں کے بارے میں سیریَس ہیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اِس تجویز پر عمل کر کے توندوں کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ پہلے تو آپ تمام اہلِ توند اہل کاروں کی فہرست بنائیں۔ ہر ایک کے نام کے آگے اُس اہل کار کا وزن بھی لکھیں۔ پھر ان تمام اہل کاروں کو وارننگ دیں کہ اگر تین ماہ کے اندر اندر توند ختم نہ ہوئی تو اُن کو Demote کر دیا جائے گا اور اُس وقت تک انھیں سابقہ عہدے پر بحال نہیں کیا جائے گا جب تک وُہ توندوں سے نجات حاصل نہ کر لیں۔ اگر میری تجویز پر سختی سے عمل کیا گیا تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔