کورونا اور سردی نے مل کر آمدورفت محدود کر دی ہے‘ دفتری مصروفیات سے بچا کھچا وقت اب مجلسوں اور تقریبات کی نذر نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ نے رزق کا وسیلہ ایسے شعبے کو بنایا جہاں خبروں اور معلومات کی فراوانی ہے اور فارغ اوقات میں ٹی وی دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘ فلموں اور ڈراموں سے خاص رغبت نہیں‘ کتابیں ہی ان دنوں تنہائی کی ساتھی ہیں۔ رسول حمزہ توف کی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی خودنوشت سوانح عمری ’’ارشاد نامہ‘‘ شیخ منظور الٰہی کی خود نوشت’’ہم کہاں کے دانا تھے‘‘ صحافی فیض اللہ خان کی ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘‘ اورجسٹس (ر) فخر النسا کھوکھر کی وکالت ‘ عدالت‘‘ پڑھنے کا موقع انہی دنوں ملا۔ جسٹس فخر النسا کھوکھر کی آپ بیتی میں عدلیہ کی اندرونی کشمکش‘ ریشہ دوانیوں اور گروہ بندی کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے مگر قابل ذکر واقعات کا تعلق انسانی ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اجر سے ہے ‘مطالعہ کے دوران دو تین واقعات پڑھ کر شاکر شجاع آبادی یاد آئے ؎ توں محنت کر‘تے محنت دا صلہ جانے‘ خدا جانے تو ڈیوا بال کے رکھ چا‘ہوا جانے‘ خدا جانے آپ بھی پڑھیے: ’’ملتان میں مجھ سمیت تمام جج محنت سے کام کر رہے تھے‘ کام کی زیادتی کی وجہ سے میں بیمار ہو گئی اور مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تو وہاں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر میرا بہت خیال رکھتی تھی اور ہر گھنٹے بعد میرے چارٹ اور دوائیاں دیکھتی اور حال چال پوچھتی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ اتنی رغبت سے میرا علاج کر رہی ہیں تو وہ مسکرائی اور کہنے لگی میڈم !آج سے آٹھ سال قبل میں میڈیکل کا پیپر دینے لودھراں سے آ رہی تھی اور میرے والد صاحب بھی گاڑی میں موجود تھے۔ راستے میں گاڑی کا بریک ڈائون ہو گیا۔ آپ وہاں سے گزر رہی تھیں شاید کوئی مقدمہ لڑ کے آ رہی تھیں۔ آپ نے گاڑی روکی اور تمام ماجرا پوچھا۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ وقت بہت تھوڑا ہے اور اس نے میڈیکل کا پیپر دینا ہے مہربانی ہو گی اگر آپ اسے امتحانی ہال میں پہنچا دیں۔ مجھے یاد آیا میں نے اس لڑکی کو گاڑی میں بٹھا لیا اور اسے بروقت امتحانی ہال میں پہنچا دیا تھا۔ لڑکی نے کہا کہ اگر آپ اس دن میری مدد نہ کرتیں تو آج شاید میں ڈاکٹر نہ بن سکتی۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ اچھائی ہمیشہ گھوم کر اچھائی کرنے والے کے پاس واپس آتی ہے۔ میری چھوٹی سی مدد کی وجہ سے یہ بچی آج ایک ڈاکٹر ہے اور میرا ہی دل جمعی سے علاج معالجہ کر رہی ہے۔‘‘ ’’میری بیٹی ایک بڑا ہی دلچسپ خط لے کر آئی جس میں ایک آٹھویں کلاس کی بچی نے شکایت کی کہ اس کے پرچہ کی مارکنگ غلط کی گئی ہے جس کی وجہ سے اس کا وظیفہ (سکالر شپ)رہ گیا ہے۔ وہ بچی بہت وثوق سے کہہ رہی تھی کہ میرا پرچہ بہت اچھا ہوا ہے اور اگر میں اس کی دوبارہ چیکنگ کروائوں تو وہ وظیفہ کے لئے نامزد ہو سکتی ہے۔ مجھے ایسے لگا کہ ایک معصوم بچی نے میری عدالت میں پورے یقین کے ساتھ ناانصافی کے خلاف انصاف مانگا۔ اس بچی کا والد ایک مزدور تھا۔ میں نے خط پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی کے پرچے منگوا لئے‘ تاریخ پر بچی اپنے باپ کے ساتھ عدالت میں آئی اور وہ خود کیس کی پیروی کر رہی تھی۔ میں نے عدالت میں موجود وکلاء صاحبان سے کہا کہ کوئی اس کی پیروی کرے گا؟ ایک وکیل صاحب کہنے لگے کہ میں بغیر پیسے لئے بچی کے کیس کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میرے حکم پر پیپرز کی ازسرنو چیکنگ ہوئی اور بچی کا دعویٰ صحیح نکلا ‘اس بچی کے نمبر کاٹے گئے تھے۔ دوبارہ گنتی پر بچی وظیفہ کے لئے نامزد ہو گئی تھی۔ اس کیس کو اخبارات نے بہت شہرت دی‘‘۔ ’’ بچوں کی کسٹڈی کا ایک کیس میرے سامنے پیش ہوا۔ خاوند کا موقف تھا کہ اس کی بیوی ایک ناچنے گانے والی ہے لہٰذا وہ ان بچوں کی صحیح کفالت نہیں کر سکتی اور ان بچوں کو باپ کو دے دیا جائے۔ ماتحت عدالتوں نے ماں کو سنا ہی نہیں اور اس کے پیشہ کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کی کفالت باپ کے حوالے کر دی۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ میں ماں کو پورا موقع فراہم کرتی کہ وہ اپنا موقف بیان کرے۔ اگلی پیشی پر میرے سامنے ایک بہت خوبصورت اور نوجوان عورت جس کا نام رانی تھا برقعہ میں پیش ہوئی اور اس نے مجھ سے درخواست کی کہ وہ کچھ ویڈیو دکھانا چاہتی ہے۔ میں نے بند کمرہ میں ویڈیو چلانے کا حکم دیا فریقین اور ان کے وکلا بھی موجود تھے۔ اس ویڈیو میں بہت سے شرفاء کی موجودگی میں ایک نو سالہ بچی کو پہلی بار گانے کی محفل میں متعارف کیا جا رہا تھا۔ تقریب کا آغاز قرآن پاک کی آیت سے ہوا اور اس کے بعد ایک گائیکہ نے آ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور تقریب کے اختتام پر اعلان کیا گیا کہ آج سے یہ بچی بازار کی زینت ہے۔ یہ بچی رانی تھی۔ رانی بولی جج صاحبہ! میں ایک گانے بجانے والے گھرانے میں پیدا ہوئی اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا لیکن میرا شوہر جس کا فرض تھا کہ وہ مجھے اس دلدل سے نکالتا اس نے بھی میرے اس فن سے مالی فائدہ اٹھایا۔ رانی نے ثبوت کے طور پر دوسری ویڈیو عدالت کے روبرو پیش کی جس میں وہ مختلف تقریبات میں ناچ رہی تھی اور اس کا شوہر تماشائیوں میں کھڑا تھا اور چھپ رہا تھا۔ جب وہ ناچتے ناچتے اپنے بچے کے پاس جاتی ہے لوگ اس کے منہ پر نوٹ ڈال دیتے ہیں۔ اس نے کہا میں نے تو ایسے ماحول میں جنم لیا جو تھا ہی زہریلا مگر اس سے پوچھو کیا اس نے نکاح کے بعد مجھے وہ عزت دی جو میرا حق تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا ۔میں نے بچوں کو عدالت میں بلوایا اور ان سے اپنے چیمبر میں پوچھا کہ ان کی زندگی اور حالات کیا تھے اور وہ کہاں رہنا چاہتے تھے۔ بچوں نے بتایا کہ رانی نے دوسری شادی کر لی تھی اور ان کا دوسرا باپ ان کا بہت خیال رکھتا ہے وہ سکول میں جاتے ہیں اور قرآن شریف پڑھتے ہیں وہ اپنے باپ کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے۔ اس کیس کا فیصلہ میرے لئے ایک چیلنج تھا کیونکہ ایک طرف ایک ایسا باپ تھا جس نے کبھی اپنے خاندان اور اولاد کی ذمہ داری نہیں نبھائی تھی دوسری طرف ایک طوائف جو کہ کبھی بھی مجبوری میں اپنے پرانے پیشے کی طرف جا سکتی تھی۔ میں نے اس میں یہ فیصلہ کیا کہ ماں اور باپ کی کفالت بچوں کے لئے ہو گی تاہم وہ اچھے سے ہاسٹل میں رہیں گے جس کے اخراجات باپ برداشت کرے گا اور حکومت کو حکم دیا کہ وہ بچوں کے لئے ایک ایسا ادارہ قائم کرے جو بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے۔ ‘‘ توں ڈیوا بال کے رکھ چا‘ ہوا جانے خدا جانے۔