یوں تو حق و باطل،کفرواسلام کی کشمکش ہر دور میں جاری رہی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے بھارت میں اس حوالے سے مزید شدت آگئی ہے اور کافرانہ قوتوں کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہاہے پہلے انہیں سیاسی ، اقتصادی طور پر کمزور کیا ، اور اب ان کے منبع ومرکز کی توہین پروہ اتر آئے ۔جمعہ 21 اگست 2020ء کو وادی کشمیراورجموں کے مسلم اکثریتی علاقے ابل پڑی اور اسلامیان جموںو کشمیر نے اس طوفان بدتمیزی کے خلاف احتجاج کیا۔ بھارت کا سنگھ پریوارسمجھ بیٹھاہے کہ ایسے مسلمان جو بھارت میں جس قدر وسیع ہو جس کی آبادی 22کروڑ سے بھی زیادہ کیوں نہ ہو لیکن وہ جری اور بے باک قیادت سے عاری ہو بھیڑوں کا گلہ اور سروں کی قطار کے سواکچھ نہیںجو ماضی سے پٹتاچلاآرہاہے اور مستقبل میں بھی ان کے ساتھ یہی کچھ ہوگابلکہ اس سے بھی برے حالات کا انہیں سامنا ہوگااورجوآج اور کل بے بسی اوربے کسی کی عملی تصویر بنے ہیں۔اس لئے اس نے ایک ناپاک منصوبہ تیارکیا جس کے تحت وہ تہذیبی یلغار کی انتہائوں تک بھارت کے مسلمانوں کا پیچھا کرنا چاہتا ہے۔اسی شرم،ناک منصوبے کایہ حصہ ہے کہ وہ اپنے چہروں پر گند اچھالتے ہوئے ایسی زہر افشانی کر رہا ہے جو مسلمانوں کیلئے نا قابلِ برداشت ہے اور مسلمان اس زہر افشانی پر نعرہ زن بن جاتے ہیں۔اسے اس طرح بھی سمجھاجاسکتاہے کہ بھارتی مسلمانوں کو جان بوجھ کر مشتعل کیا جا رہا ہے تا کہ انکے خلاف بنائے گئے ناپاک منصوبوں کی تکمیل ہو۔ سنگھ پریوار نے اب اپنے تمام شر و فساد کیساتھ جموں و کشمیر کا بھی رخ کر لیا اور اس طرح بیک وقت بنگلور سے جموں تک توہین رسالت کی ایک شرمناک مہم چھیڑدی ہے۔ اسلامی عقیدے اور اس سے پھوٹنے والے صالح افکار کے نتیجے میں ہو ش مند مسلمانوں کے تلملااٹھنے پر ا نہیں بے صبر لوگ قرار دیا جا رہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے اہل اسلام کو کفر کے سامنے گردن جھکانے پر مجبور کرنے والی سفاک مہم جوبھارت میںکئی ناموں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کر رہی ہے۔لیکن بھارت کی مسلمان تنظیموں نے کبھی بھی ہندئووں یاسنگھ پریوار کی ہرزہ سرائی پر غور نہیں کیا۔انکے ناپاکعزائم اور ان کے اغراض ومقاصد کو نہیں سمجھا ان کی نیت کافتور اور درپردہ مقاصد کو نہیں بھانپا ان کی کھوٹ اور عصبیت کو نہیں پرکھا۔ گزشتہ30برسوں سے بالخصوص اسلامیان مقبوضہ کشمیر جرم بیگناہی میں مارے جا رہے ہیں، شہیدکئے جارہے ہیںکبھی اس پراحتجاج کیا اس طرف بھارت کی مسلم جماعتوں نے کبھی توجہ تک نہ کی۔پھرجب گذشتہ کئی برسوں سے اسلامیان ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اس طرف بھی انہوں نے پوری طرح التفات نہ کی۔ وہ سنگھ پریوارکے استحصالی اوراس کے جھگڑالو رویّے کی طرف نہیں دیکھتے۔اس خونخوار بھیڑیے جس نے سرکاری پشت پناہی اورحکومتی سرپرستی اورمودی کی مکمل آشیربادسے بھارتی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اس کے خونی جبڑوں کو نہیں دیکھتے اور ان خونی جبڑوں سے نہ اللہ اللہ کرنیوالا کوئی مسلمان بچاہواہے اورجو خود دار مسلمان سر اٹھا کر چلنے کا ارادہ کرتا ہے اس کی فوری سر کوبی کی جاتی ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں کوئی مسجد حتیٰ کہ قرآن ،رسول اورشعائراللہ سنگھ پریوار کے شر سے محفوظ نہیں۔ دراصل اس نے ایک جنگ چھیڑرکھی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ سرکاری سرپرستی میں یہ ماینڈسیٹ مسلم کش فسادات کا ارتکاب کر چکا ہے جس میں آج تک ہزاروںمسلمان مرد ،خواتین، بچے اور بوڑھے شہید ، زخمی و معذور اور اس سے کئی گنا زیادہ بے گھر اور اپنے وطن سے دور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی جنگ کومذیدآنچ دیتے ہوئے مودی کازر خرید میڈیا بھارتی مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسند کہہ کران کے خلاف انتہائی زہریلے اور مسموم پروپیگنڈے میں ہمہ تن مصروف ہے اوریہ مہیب سلسلہ لگاتارجاری ہے۔بھارتی میڈیا کی طرف سے پورے بھارت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعلیم دینے والا مذہب اور مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں اس لئے بھارت میں امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے اسلامی تعلیمات میں تبدیلی،اسکی جگہ صوفی ازم کو لاکھڑاکرنا اور دہشت گرد اور انتہا پسند مسلمانوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ آج کے بھارتی حکام’’مودی اینڈ کمپنی‘‘ اپنے عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے مسلسل اس بات کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلمان دہشتگرد ہیں اوران سے نمٹ لینے کے اقدامات ان کے بھارت کے عوام ’’ہندئووں‘‘ کے تحفظ کیلئے ضروری ہیں۔ لیکن کہانی کچھ اور ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک امریکی مفکر ’’فوکوہامہ‘‘ نے ’’End of Histry‘‘ میں لکھا کہ سرمایہ دار انہ نظام انسان کیلئے لا فانی نجات کا ذریعہ ہے۔ اسلام ایسی تمام کمزوریوں اور شکست و ریخت کے باوجود اس کامیاب طرز زندگی کے لئے خطرہ ہے۔ اسلام سے وابستہ یہ وہ خطرات ہیں جن کی وجہ سے ا اغیار طوفان کی طرح مسلمانوں پر چڑھے چلے آرہے ہیں۔ دراصل اس بکواس کی آڑ میں مودی بہت کچھ حاصل کر ناچاہتاہے چنانچہ اب یہ بھارتی سیاست کا حصہ بن چکا ہے کہ انتخابات جیتنے کے لیے مسلمانوں کوٹھیس پہنچاتے ہوئے ناپاک عزم کا اظہار اور اسلام کرمرکزومنبع شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرزہ سرائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔ ہندوتنظیمیں اوران سے وابستگان ایک سے بڑھ کر ایک مرکز اسلام اور عالم اسلام کے خلاف زبان درازی کررہے ہیں جس کی مثال 13اگست سے 15اگست 2020ء میں بنگلورسے جموں تک کی شرمناک مہم ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں مملکت پاکستان کے بغیربھارت میں ہورہی توہین رسالت پرکوئی مسلمان ملک نہیں بول رہا۔ عرب سے عجم تک عالم اسلام میں حکمران اپنی گردنیں طاغوت کے سامنے جھکائے ہوئے تسلیم و رضا کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اس روئیے نے اسلام اور مسلمانوں کو عالم کفر کے سامنے بے توقیر کر دیا کاش ان میں غیرت ہوتی تو کبھی بھی ابھارت کے یہ خنازیر سید الاولین والآخرین ا نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ہرزہ سرائی کی جسارت نہ کرتے۔ دنیا بھرکے مسلمان مجتمع نہ ہوئے تواغیارہرزہ سرائی سے باز نہیں آئیں گے ۔توہیں رسالت ہرگزبرداشت نہیں اورکوئی پلید کافراپنی گندی زبان استعمال کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت اوراسلامی غیرت کوللکارے ۔ یہ ہرگز مسلمانوں کے شایان شان نہیں مسلمانوں کو اپنی تقدیر اور حالت بدلنے کا جو نسخہ دین نے فراہم کیا ہے وہ اس پر عمل کریں نیشنل ازم ، برادری ازم، وڈیرہ ازم جیسے بتوں کو توڑ کر وہ با صلاحیت دیانت دار اور دنیاوی اوردہنی علوم سے بہرہ مند صاحبان بصیرت کو اپنا اعتماد دیں ان سے قربت بڑھائیں انہیں امارت سونپیں تو پھر اس میں کوئی شک و ابہام نہیں کہ اللہ رحیم و کریم اپنی مہربانی سے امت مسلمہ کو ایک ایسی صالح قیادت عطا فرمائے گا۔ جو امت مسلمہ کو موجودہ زبوں حالی سے نجات دلائے گی۔