کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ " تکبر " کیا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہم میں سے بے شمار لوگ " لفظ فساد " کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن اکثریت کو اس لفظ کا مفہوم یا تو سرے سے معلوم نہیں ہے یا پھر اس کو روایتی انداز میں لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ کسی کی پرآئش زندگی، خوش پوشی اور نظافت کو بھی تکبر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔ اس بارے میں راقم نے بذات خود بے شمار لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں بندہ بڑا متکبر اور مغرور ہے ۔ وجہ پوچھنے پر یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ" مذکورہ شخص ہمہ وقت شاہانہ لباس زیب تن کرتاہے، اعلی قیمت کے جوتے پہنتے ہیں، گھر میں خوش خوراکی پر بھی زیادہ توجہ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ حالانکہ انسانیت کی راہنما کتاب قرآن نے تکبر کو بہت وسیع پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ قرآن کے مطابق تکبر اس بڑائی کا نام ہے جس کے نشے میں دھت ہوکر ایک بندہ خدائی نظام کو چیلنج کرتاہے، اس کے بتائے ہوئے اصولوں سے اپنے آپ کو ڈی ریل کرواتا ہے اور سبھی حدود کی دھجیاں اڑاتاہے ۔ باالفاظ دیگر متکبر شخص اس شتر بے مہارکی مانند ہے جو اپنے مالک سے بغاوت کرکے مطلق العنانیت اور سر کشی پر اتر آتاہے ۔ دوسروں کا مال ناحق طریقے سے بزور بازو چھیننا بھی تکبر ہے ۔انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کرکے ناحق طریقے سے ان کی جان لینا۔ لوگوں کی آبرو ریزی کرنا، اپنے آپ کو ہر ایک سے برتر سمجھنا وغیرہ سبھی وہ قابل ذم حرکیات ہیں جو متکبر انسانوں کا شیوہ ہوتاہے ۔ اسی لئے قرآن میں اللہ تعالی نے ان دو قبیح صفات کے حامل انسانوں کی یہاں تک مذمت کی ہے کہ دار آخرت کو اس سے مشروط کیاہے " ترجمہ: یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں تکبر اور نہ ہی فساد چاہتے ہیں " ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رسالت مآب صلی اللہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا " ترجمہ: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو ۔ اس پر ایک شخص نے پوچھا ( یا رسول اللہ) بعض لوگ خوشی لباسی اور خوش پیزاری کوپسند فرماتے ہیں کیا یہ بھی متکبرین ہیں۔ اس پر رسالت مآبؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں ۔ کبر کا مطلب حق کا ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے " ۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کے ہاں فسادی فقط اس شخص کا نام ہے جو یا تو زیادہ باتونی اور زبان دراز ہو یا پھر عام روزمرہ کے معاملات میں درد سر بنتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف قرآن کی طرف رجوع کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فساد صرف چڑچڑاپن اور زبان درازی کا نام نہیں بلکہ اس کا دائرہ نہایت وسیع اور لا متناہی ہے۔ لفظ فساد قرآن میں جا بجا متعدد اسالیب ، متنوع پیرائے اور مختلف سیاق وسباق میں استعمال ہوا ہے ۔ فساد فی الارض ایک نہایت ہی جامع لفظ ہے جس میں ہر طرح کی خرابی، گمراہی ، شرک اور کفر ،قتل وغارت گری ، فتنہ پروری اور حقوق اللہ و حقوق العباد کی پامالی شامل ہے۔ لفظ فساد، اصلاح کی ضد ہے اور اہل زبان کے ہاں یہ نقص وخلل سے عبارت ہے ۔ یعنی اگر کوئی بھی اپنا توازن اور اعتدال کھو بیٹھے( جو شریعت نے اسکے لئے طے کیے ہیں) تو اسے ہم فساد سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ قرآن میں لفظ فساد اور اسکے مشتقات تقریبا ًپچاس سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں، جن میں اکثر مقامات پر اسکے ساتھ لفظ ’’ارض’’ بھی آیا ہے ، سو اس کا واضح مفہوم یہ لیا جاسکتاہے کہ فساد کا روئے زمین سے گہراتعلق ہے اور اکثر فسادات زمین ہی کے سینے پر رونما ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر عقیدے کا فساد وخلل جو کہ تمام فسادات کی جڑ ہے ۔ کیونکہ جب انسان کا عقیدہ فاسد ہو جائے تو لازمی طور پر اسکے تمام تر افعال اور اخلاقیات میں بھی فساد آجاتاہے ۔ عقیدوی فساد کی سب سے بدترین قسم شرک اور کفر ہے، جس کے بارے میں اللہ سورہ نحل میں فرماتاہے :’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم انہیں عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے، یہ بدلہ ہوگا ان کی فتنہ پردازیوں کا "۔ اسی طرح نفاق بھی فساد قرار دیاگیاہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی فرماتاہے کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں خبردار ہو یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے، (البقرہ)۔ اسی طرح انبیاء اور رسولوں کوجھٹلانا ، ان سے دشمنی مول لینا ، انکی اہانت و مخالفت سب عقیدے کی فساد میں شامل ہے ۔ علامہ ابن ابن قیم رحمتہ اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، غیر اللہ کو پکارنا اور اسکی عبادت کرنا اور نبی کے سوا کسی اور کو قابل اتباع سمجھنا یہ سب فساد کی بد ترین اقسام ہیں ۔ عہود و مواثیق کی پامالی، وعدے وعود کی بے حرمتی اور رشتے ناطے کو توڑنا بھی فساد ہے ۔ مال کے بارے شریعت نے ایک نہایت جامع اور مکمل نظام ہمیں دیا ہے اور سود، ڈاکہ زنی، کسب حرام سبھی وہ باطل طریقے ہیں جن سے ہماری شریعت نے ہمیں روکا ہے اور اسے فساد کے اسباب قرار دیئے ہیں ۔ بلاشبہ تکبر اور فساد دو ایسے قبیح اوصاف ہیں جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ ہمیشہ مصائب اور بحرانوں سے دو چار رہا ہے ۔ قرآن نے سورہ قصص کی جس آیت میں تکبر کے بعد فساد کا ذکر کیا ہے اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ فساد بھی اس وقت انسان سے سرزد ہوتا ہے جب اس کے دل اور دماغ میں تکبر اور بڑائی کا پودا جڑ پکڑتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان رزیلہ خصائل سے نجات دلادیں تاکہ معاشرے میں امن و سکون، اعتدال اور انسان دوستی کا بول بالا ہو ۔