اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)چار سال گزرنے کے باوجود کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے حامی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے اثرورسوخ کا انکشاف ہوا ہے جس کے باعث وفاقی حکومت نے تحقیقاتی افسر،پراسیکیوٹر، گواہان اورثبوتوں کو ممکنہ خطرات کے پیش بانی ایم کیوایم کیخلاف دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کا کراچی میں انڈر ٹرائل کیس انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد منتقل کرنے کی منظوری دیدی ، کراچی بدستور ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ ہے ۔ایم کیوایم لندن کے حامیوں کی جانب سے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کیے جانے کے امکانات ہیں۔معاملے کی تحقیقات کیلئے برطانیہ اور کینیڈا سے رابطہ کی صورت میں ہائی کمیشن،دفتر خارجہ،انٹر پول کے دفاتر اسلام آباد میں ہونے کے باعث وقت اور وسائل کو بچایا جا سکے گا۔ 92نیوز کو موصول دستاویز کے مطابق ایف آئی اے کو آگاہ کیا گیا کہ کراچی کے رہائشی احمد علی ولد صادق علی کی جانب سے ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے خلاف درج کی گئی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ کیس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ اے ٹی اے 1997کے سیکشن28(5)کے تحت نہیں کیا گیا۔سیکشن کے تحت وفاقی حکومت تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اور رپورٹ جمع کرانے سے پہلے کیس منتقل کر سکتی ہے جبکہ اس کیس میں تحقیقات مکمل نہیں ہوئی۔سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے 5ستمبر2019ئکے حکم نامے میں ہدایت دی گئی کہ وفاقی حکومت سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کیس منتقل کر سکتی ہے ۔جبکہ اینٹی ٹیررازم ایکٹ1997کے سیکشن 28کے سب سیکشن(1)کے مطابق صرف چیف جسٹس دائرہ کار کا معاملہ طے کرنے کا مجاز ہے ۔اس حوالے سے اس معاملے کو سندھ ہائیکورٹ کے سامنے پیش کیا جائے ۔ اینٹی ٹیررازم ایکٹ1997کے سیکشن 28(1A)کے تحت ججوں،گواہان اور پراسیکیوٹر کی حفاظت اور انصاف کیلئے اگر حکومت کسی کیس کو دوسرے شہر منتقل کرنا چاہتی ہے تو اس حوالے سے متعلقہ چیف جسٹس سے در خواست کی جا سکتی ہے ۔دوسرے شہر منتقل ہونے کی صورت میں متعلقہ چیف جسٹس کی اجازت لینا بھی ضروری ہے ۔ اینٹی ٹیررازم ایکٹ1997کے سیکشن 28کے سب سیکشن(1)کے تحت کیس کو منتقل کرنے کیلئے کابینہ کی منظوری درکار تھی۔ وزارت داخلہ کی سمری پر وزیراعظم بانی ایم کیو ایم کیخلاف دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کا کیس کا ٹرائل اسلام آباد منتقل کرنے کیلئے کابینہ ارکان سے سرکولیشن کے ذریعے سے منظوری لینے کی ہدایت کی۔اس معاملے کو قانون انصاف ڈویژن کے ذریعے سندھ ہائیکورٹ کے سامنے پیش کیا جائیگا۔