ملکی سیاست میں سینیٹ انتخابات انتہائی اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔حکومت نے آئندہ سال میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت اور شو آف ہینڈز کے ذریعے کروا نے کا ارادہ ظاہر کرکے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔سینیٹ کے انتخابات 10 فروری سے لیکر مارچ کے ابتدائی ہفتے تک کسی بھی وقت الیکشن کمیشن کے اعلان کر دہ شیڈول کے مطابق ہو ں گے ،جس میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے نامزدہ 52 افراد اپنی قسمت آزمائیں گے، کیونکہ52 موجودہ ارکان نے اپنی آئینی مدت پوری کر کے ریٹائر ہونا ہے اور ان کی جگہ اتنے ہی ارکان کا انتخاب ہونا ہے۔ سینیٹ میں موجودہ پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالنے سے باآسانی اندازہ ہو جاتاہے کہ کس پارٹی کے کتنے سینیٹرزریٹائر ہوں گے؟اس وقت سینیٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ن لیگ ہے، جس کے ارکان کی تعداد30 ہے ،جبکہ اس کے ایک منتخب سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا اوریہ نشست اب تک خالی ہے۔آئندہ سینیٹ کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان ن لیگ کوہوگا ،جس کے 17 سینیٹرز اپنی آئینی مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔اس وقت سینیٹ میں دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی ہے اور اس کے21 میں سے8ارکان ریٹائر ہو جائیں گے، جن میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا بھی شامل ہیں۔ موجودہ سینیٹ میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 14 ہے،جن میں سے 7 ارکان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ایم کیو ایم(پاکستان) کے 5ارکان میں سے 4 ریٹائر ہو جائیں گے۔ جے یو آئی(ف) کے 4ارکان میں سے 2ریٹائر ہوں گے۔ جماعت اسلامی کے 2 ارکان میں سے ایک ریٹائر ہو گا۔ اے این پی کا صرف ایک ہی سینیٹر ہے اور اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اے این پی کی سینیٹ میں نمائندگی ختم ہو جائے گی۔ نیشنل پارٹی کے 4 میں سے 2ارکان ریٹائر ہوں گے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 4 میں سے 2ارکان ریٹائر ہوں گے۔ بی این پی(مینگل) کا ایک ہی رکن ہے اور وہ ریٹائر ہوجائے گا تو اس پارٹی کی نمائندگی بھی سینیٹ میں ختم ہو جائے گی۔پی ایم ایل فنکشنل کا ایک رکن ہے ،جو ریٹائر نہیں ہو رہا،جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے9 ارکان میں سے 3 ریٹائر ہو جائیں گے، جبکہ 7 آزاد ارکان میں سے 4ریٹائر ہوجائیں گے۔ سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے ہوں یا خفیہ بیلٹ سے ،متوقع طور پر پی ٹی آئی سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہو گی، لیکن اس کے باوجود اس کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہو گی اور قانون سازی کے لیے اسے پہلے کی طرح دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہاتھ ملاناہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات قبل از وقت کروا کرحکمران جماعت پی ٹی آئی کو کیا فائدہ ہو گا؟ بظاہر تو کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا، سوائے اس کے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کواستعفوں کا کارڈ شاید ذرا پہلے کھیلنا پڑ جائے۔ ویسے بہت سے قانونی ماہرین تو یہ رائے رکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے استعفوں کے باوجود اسمبلیوں کے باقی ماندہ ارکان الیکٹورل کالج کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور سینیٹرز کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں؛اگرچہ ایک دوسرے حلقے کی رائے یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا اورجہاں تک خفیہ رائے شماری کا تعلق ہے، اس بارے میں آئینی ماہرین کے ایک حلقے کے بقول آئین میں ترمیم کرنا ضروری ہے، جبکہ دوسرے حلقے کے مطابق ،کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں اورصرف الیکشن کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کر کے شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخاب کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے۔ اب، اگر وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں یہ معاملہ ریفرنس کے طور پر سپریم کورٹ میں لے جایا جاتا ہے،تو اس فیصلے کی روشنی میں خفیہ یا اوپن بیلٹ کا فیصلہ ہو سکتا ہے،لیکن اس کے لیے کیا ہی بہتر ہوتا کہ انتخابی اصلاحات کا پورا پیکیج متعارف کروا دیا جاتا، جس میں دوسری انتخابی اصلاحات بھی ہوجاتیں؛ خاص طور پر ایسی اصلاحات ،جن کے نتیجے میں تمام سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم کرتیں اور ان کا اعتماد قائم ہوتا ،جو آج تک نہیں ہو سکا۔اس کے علاوہ ہارس ٹریڈنگ کا بھی خاتمہ بھی ناگزیر ہے، جو آج تک نہیں ہو سکا،جبکہ ایک دوسری صورتحال یہ بھی ہیکہ اگر پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں سینیٹ کے انتخابات سے قبل استعفے دیتی ہیں، تو اسپیکر کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ استعفے منظور کرے یا نہ کرے اور اگر استعفے منظور کر لیے جاتے ہیں تو پھر ملکی سیاسی صورتحال یکسر مختلف ہو گی۔دوسری طرف حکومت نے فروری میں سینیٹ کے انتخابات کروانے پر سنجیدگی سے غور شروع کر نا شروع کردیا ہے، ان حالات میں پی ڈی ایم کے لیے کئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ، کیونکہ میڈیا ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتوں کے ارکان اسمبلی قیادت کو بھی اپنے استعفے دینے سے اجتناب کررہے ہیں ، جبکہ حکمران جماعت سینیٹ کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن کے استعفوں کی بار بار ڈیمانڈ کر رہی ہے۔سوال یہ بھی اہم ہے کہ پی ڈی ایم کے استعفوں اور پیپلز پارٹی کے طرف سے سندھ حکومت کی قربانی دینے سے سینیٹ انتخابات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ ؟سندھ اسمبلی ٹوٹنے سے کیا الیکٹورل کالج نا مکمل ہو جائے گا؟400 سے زائد استعفوں کے بعد کیا سینیٹ کے انتخابات ممکن ہوں پائیں گے ؟؟ اس بارے میں آئینی ماہرین سے رائے مانگی جا چکی ہے۔ پی ڈی ایم قیادت کے مطابق ؛اس صورتحال میں سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا اورسینیٹ کے انتخابات ممکن نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ممکنہ سیاسی بحران کے حوالے سے سینیٹ کے انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے مذکورہ بالا صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت قانونی امور میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے، جبکہ اس وقت ملک کو داخلی اور خارجی طور پر بے شمار خطرات درپیش ہیں، جن میں کورونا اور اس کی وجہ سے قومی معیشت پر شدید دبائو سب کے سامنے ہے۔اس کے علاوہ ازلی دشمن ملک بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات اور فالس فلیگ آپریشن کے خطرے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب سوا ل یہ ہے کہ عوام کے نام پر سیاست کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو کیا واقعی عوام کے دکھوں اور تکالیف کا کچھ ادارک بھی ہے یا پھر تمام سیاسی قائدین اپنے مفادات کی سیاست کرنے میں مصروف ہیں؟ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کا امتحان ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کے باوجود متنازع امور میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں یا نہیں؟اپوزیشن کی طرف سے استعفے اور لانگ مارچ کی دھمکی اور حکومت کا جواب میں سینیٹ کے انتخابات جلد کروانے کے اعلان سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں ذرا سوچیں اور جواب ڈھونڈیں؛ آخر اتنی عجلت کس بات کی ہے؟ ہاتھ سے کیا نکلا جا رہا ہے؟