صوبہ سندھ کے پسماندہ ترین شہرتھرپارکرمیں مزید چار بچے دم توڑ گئے ہیں۔ رواں ماہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 31ہو گئی ہے جبکہ سول ہسپتال مٹھی میں تاحال 34بچے زیر علاج ہیں۔ ملک بھر میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔جبکہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد مہنگائی کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں صحت کی سہولتیں ناپید ہیں جبکہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ پانچ کروڑ کی آبادی کے صوبے سندھ میں جتنے بھی ہسپتال کام کر رہے ہیں ان میں مجموعی طور پر صرف 13ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ جبکہ 1300افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ دانتوں کے 16ہزار مریضوں کے لئے بھی ایک ڈینٹل سرجن دستیاب ہے۔ سندھ بھر میں ایک ہی برن سنٹر ہے۔ خدانخواستہ اگر کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو انسانی جانوں کو بچانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی فراہمی بھی کافی کم ہے۔ اگر صرف تھر کی بات کی جائے تو وہاں پر صحت مند انسان کا پایا جانا ممکن نہیں ۔ جوہڑوں‘ تالابوں اورکنوئوں کا آلودہ پانی پی کر ہر شہری کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے۔ جراثیم زدہ پانی پینے سے لوگوں میں مختلف امراض پائے جاتے ہیں۔ لیکن سندھ حکومت نے آج تک وہاں کے عوام کی قسمت بدلنے کے لئے کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی نے 2018ء کے بجٹ میں صحت کے لئے غیر ترقیاتی مد میں 12.2اور ترقیاتی مد میں 12.5ارب روپے رکھے تھے۔ جبکہ غذائی قلت اور سوکھے کی بیماری سے بچنے کے لئے 5.1ارب روپے مختص کئے تھے۔6ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن شعبہ صحت میں کوئی تبدیلی نظرنہیں آئی۔ چھ ماہ گزرنے کے ساتھ بجٹ میں رکھی رقم کا ایک حصہ خرچ ہو چکا ہو گا لیکن صوبے کے عوام جانوروں کے ساتھ جوہڑوں میں پانی پیتے رہے ہیں اور تھر کے معصوم بچے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سے لے کر بلاول زرداری تک کسی میں بھی جرات نہیں کہ وہ صوبائی وزیر صحت عذرا فضل پیچو ہو سے کارکردگی کے بارے سوال کر سکے؟ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں بھی کرپشن کا راج ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ نے لاڑکانہ اور شداد کوٹ کے ترقیاتی کاموں میں خرد برد پر کہا کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے لیکن پیپلز پارٹی نے تو لاڑکانہ کو بھی نہیں بخشا۔ ٹنڈو محمد خان‘ جیکب آباد سمیت سبھی علاقوںمیں کرپشن کا راج ہے۔ اگر نیب اس پر سوال کرے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی روٹی‘ کپڑا اورمکان دینے کا نعرہ لگا کرغریب عوام سے یہ سب چیزیں چھیننے پر تلی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں بھی صحت کے شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہاں پر صوبے کی صرف 33فیصد آبادی کو صحت کی سہولتیں میسر ہیں۔ بلوچستان میں چھ اضلاع ایسے ہیں جہاں پر سرے سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قائم ہی نہیں۔ جبکہ 10اضلاع ایسے ہیں جہاں پر قائم ہسپتالوں میں میڈیکل سپیشلسٹ ہی نہیں۔ چمن میں ڈسٹرکٹ ہسپتال دو سال سے مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن ضلعی حکومت ابھی تک اسے اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکی۔ درحقیقت بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جاگیردار‘ وڈیرے اور سردار غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ جس بنا پر ان علاقوں میں ابھی تک زمانہ جہالت والا دور غلامی ہی چل رہا ہے۔ بلوچستان میں پچھلے پانچ سال میں ایک سو ارب روپے صحت کے شعبے کے لئے مختص کئے گئے تھے اگر یہ رقم صحیح معنوں میں صوبے میں خرچ ہوتی تو وہاں کے عوام کی قسمت بدلی جا سکتی تھی لیکن ابھی تک وہاں پر ہسپتالوں‘ سکولز‘ کالجز اور سرکاری عمارتوں میں جانوروں کے باڑے قائم ہیں۔ لیکن غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غربت ‘بے روزگاری‘ ادویات کی قیمتوںمیں اضافہ اور خوراک کی کمی جیسے مسائل نے غریب عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ سٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ کے مطابق 6ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 77فیصد کمی ہوئی ہے۔ جبکہ سٹاک مارکیٹ سے پونے 3ارب روپے نکل گئے ہیں لیکن اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر میں مہنگائی کی شرح میں 6.17فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز پاور کمپنیوں نے دسمبر کے لئے فیول ایڈجسٹمنٹ کی قیمت میں 63پیسے اضافے کی درخواست کی ہے۔ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستے عوام پر گیس‘ بجلی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے انہیں مزید بے حال کیا جارہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ ہر کوئی پریشان ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنی کرپشن چھپانے کے لئے گلے مل رہی ہیں۔ انہیں غریب عوام کی کوئی فکر نہ ہے۔ ہر کوئی اپنی کرپشن ہضم کرنے کے چکر میں ہے۔ ان حالات میں حکومت عوامی مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی اختیار کرے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سپیکر قومی اسمبلی کو عوامی مسائل کے حل کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ٹاسک فورس بنانے کا ٹاسک دیا ہے۔ جو خوش آئند ہے۔اس سے لازمی طور پر عوامی مسائل حل ہو سکیں گے ، اگر عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے تو پھر حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہونگی۔ اس لئے حکومت سنجیدگی سے عوامی مسائل کے حل کے لئے کوشش کرے۔ سندھ ‘بلوچستان میں خصوصی اور ملک بھر میں عمومی طور پر صحت کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ ہیلتھ کارڈ کا فی الفور اجرا کریں تاکہ غریب لوگ اپنا علاج معالجہ کروا سکیں۔ وزیر اعظم ذاتی طور پر اس مسئلے میں دلچسپی لیں۔ تاکہ ان کی 22سالہ جدوجہد کا ثمر سامنے آ سکے۔