تھرپارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث گزشتہ روز 3 مزید بچے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ محکمہ سندھ کے شعبہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق تھرپارکر میں ہر سال 1500 بچے غذائی قلت اور وبائی امراض سے جاںبحق ہو جاتے ہیں۔ حکومت ہر سال تھرپارکر میں امدادی سرگرمیوں کے نام پر کاغذوں میں اربوں روپے مختص کرتی ہے مگر زمینی حالات کچھ یوں ہیں کہ سندھ حکومت کی طرف سے تھرپارکرکے عوام کے لئے بھجوائی گئی گندم گوداموں میں سڑنے اور امداد کی رقوم کی بندربانٹ کی خبریں آتی رہی ہیں۔ سندھ حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود تھرپارکر میں غذائی قلت کے باعث اموات میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا ثبوت سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2016ء میں450 بچوں اور 2017ء میں 479 بچوں کا مناسب غذا نہ ملنے کے باعث ہلاک ہونا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بچوں کی غذائی قلت کے اعدادو شمار دکھلا کر اقتدار میں آنے کے بعد ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرنے کا اعلان کیاتھا مگر افسوس کا مقام ہے کہ ان کے دور اقتدار میں امسال تھرپارکر میں 817 بچے غذائی قلت سے جان کی بازی ہار چکے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک سندھ حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے تشکیل دیئے عدالتی کمشن کی سفارشات پر عملدرآمد نہ کر سکی۔ بہتر ہو گا وفاقی حکومت تھرپارکر میں بے گناہ معصوموں کی ہلاکت کی ذمہ داری سندھ حکومت پر ڈالنے کے بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری اقدامات کرے تاکہ تھرپارکر میں موت کا تسلسل تھم سکے۔