گزشتہ شب تھل کے علاقے گوہر والا میں 30 واں سالانہ سرائیکی مشاعرہ تھا، مشاعرے کا اہتمام ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ ، ان کے ساتھی ملک بشیر گوندل و دیگر مل کر کرتے ہیں ۔ مشاعرے میں دو موجودہ ایم این اے اور ایک سابق ایم این اے موجود تھے مگرافسوس کہ کسی سیاسی رہنما نے تھل کی محرومیوں کا ذکر نہ کیا۔ یہ بھی ہوا کہ بعض شعراء کرام نے محرومی کے حوالے سے شعر پڑھے تو اسٹیج سیکرٹری نے ان کو روکا اور کہا کہ یہاں سیاسی گفتگو منع ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو تھل کی محرومی کیسے ختم ہوگی؟ مشاعرے بارے الگ کالم میں بات کرینگے ، سردست یہ دیکھتے ہیں کہ تھل اور تھل کی تاریخ و جغرافیہ کیا ہے؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تھل بہت ہی مردم خیز دھرتی ہے، مولانا کوثر نیازی نے بھکر سے تعلیم پائی ، معروف کالم نگار منو بھائی بھکر میں پڑھتے رہے ۔ نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے والے پولیس آفیسر اصغر خان المعروف ہلاکو خان کا تعلق بھی بھکر سے ہی تھا ۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے پر ہلاکو خان کے خاندان کو گورنر سوار خان نے بہت مراعات دیں مگرافسوس کہ ان مراعات کا بھکر کے عوام کو فائدہ نہ ہوا ۔بھکر کے غریب لوگوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہ آئی ،اسی طرح چوہدر ی شجاعت حسین بھکر سے ہی الیکشن لڑ کر وزیراعظم بنے اور میاں شہباز شریف بھکر سے الیکشن لڑ کر وزیراعلیٰ بنے مگر بھکر کو محرومی کے سوا کچھ نہ ملا ۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بھکر میانوالی کی تحصیل تھی ، یکم جولائی 1982ء کو اسے ضلع کا درجہ ملا، بھکر کے شمال میں میانوالی ، مشرق میں خوشاب و جھنگ اور جنوب میں ضلع لیہ ہے۔ ضلع بھکر کی مغربی سرحد کے ساتھ دریائے سندھ بہتا ہے، دریا کی دوسری طرف سرائیکی وسیب کا نہایت ہی ثقافتی و ادبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے، اور ساتھ ضلع ٹانک جسے 9 نومبر 1901ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے لوگوں کے احتجاج کے باوجود زبردستی نئے بنائے گئے صوبے سرحد کا حصہ بنایا ۔ لوگ اس فیصلے کے خلاف آج تک سراپا احتجاج ہیں اور ہر سال 9 نومبرکو ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک میں ’’ کالا ڈینہ ‘‘ یعنی یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھکر کا بیشتر علاقہ ریگستان ’’ تھل ‘‘ پر مشتمل ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے اور جنوب میں وسیع صحرا’’ تھل ‘‘ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ صحرا کو آباد کرنے کیلئے 1949ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ۔ بھکر اس کا صدر مقام رہا، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تھل کو آباد کرنے کے نام پر تھل کے لوگوں سے حق ملکیت چھین لیا اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں ان کے ملکیت نامے ختم کر کے کہا گیا کہ تھل کینال بنے گی ، ایک تہائی رقبہ تھل کینال کے اخراجات کے طور پر لیا جائے گا اور نہر بننے کے بعد دو تہائی رقبہ مالکان کو واپس کر دیا جائے گا۔ نہر بننے کے بعد یہ ہوا کہ نہر کے آس پاس کے رقبے غیر مقامی آبادکاروں کو دیدیے گئے اور تھل کے قدیم باشندوں کو ایک بار پھر سے دور دراز ٹیلوں پر پھینک دیا گیا جو کہ شاید سو سال بعد بھی آباد نہ ہوں ۔ تھل کے لوگ غیر منصفانہ اقدام کے خلاف عدالتوں میں گئے ، سول مقدمے کی بناء پر ان کی تیسری نسل عدالتوں میں ہے ، انصاف نہیں ملا۔ تھل کا جغرافیہ ایک مثلث کی شکل میں ہے جس میں میانوالی ، بھکر ، خوشاب، جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ کے اضلاع آتے ہیں۔ تھل کے لوگ سیدھے سادے اور سچے لوگ ہیں ان میں انسانوں سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ،بھیڑ بکریاں پالناانکی گزر اوقات ہے، گائے بھی رکھتے ہیں ۔ جبکہ اونٹ کو تھل میں بہت اہمیت حاصل ہے، اسے صحرائی جہاز کہا جاتا ہے، اونٹ ان کی کمزوری بھی ہے ، اور اونٹ سے وہ ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں ، خواجہ فرید کا کلام ان کے جذبات کا عکاس ہے۔ نازو جمل جمیل وطن دے راہی راہندے راہ سجن دے ہوون شالا نال امن دے گوشے ساڈے ہاں دے ہِن وسیب بنیادی طور پر دریائوں کی سرزمین ہے، تاریخی کتب میں اسے سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کہا گیا ہے ، چھ اضلاع کے تھل سے کئی دریا گزرتے ہیں مگر یہ دریا تھل کو پیاسا چھوڑ کر گزر جاتے ہیں ۔ اس لئے نا امیدی غم اور ملال خطے کے باسیوں کا نصیب ٹھہرا، جب دکھ ہوں ،غم ہو ، ملال ہو تو دکھ بھری شاعری اور موسیقی ساتھی بن جاتی ہے ،تھل کے انسانوں کیلئے خواجہ فرید کی دکھ بھری کافیاں ان کے دکھوں کا مداوا ہیں ۔ خواجہ فرید نے اپنے کلام میں 50 سے زائد مقامات پر تھل کا ذکر کیا ہے ۔ ایک جگہ امید کا پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ تھل مارو دا پینڈا سارا ، تھیسم ہِک بلہانگ‘‘ اکثر جگہوں پر اسے محبت کے ساتھ ’’ تھل مارو‘‘ کا نام دیا ہے۔ ایک کافی میں خواجہ فرید کہتے ہیں کہ ویرانے کو میں نے اپنا گھر بنا لیا ہے ، میں تھل جاؤں گا ۔ تھی راہی تھل مارو جُٖلساں لانڈھی تے لس بیلہ رُلساں سُنج، بر، بار، کیتم گھر بار پچھلے دنوں اپنے ساتھیوں سید حسنین رضوی ایڈووکیٹ اور غلام مرتضیٰ خان گورمانی کے ساتھ تھل گیا تو ہمیں تھلوچی دوست محمد خان نے تھل کی سیر کرائی اور تھل کے دوستوں سے ملوایا ۔ اس موقع پر تھل کے باسی ملک غلام نبی بھیڈ وال نے بھی بہت محبتیں دیں ۔ میں نے دیکھا کہ تھل کے ٹیلے اور ریت کی رنگت بھی چولستان جیسی ہے ، اور لوگوں کے مزاج بھی ایک جیسے ہیں ۔ کرنل اقبال ملک کی کتاب ’’ روہی اور خواجہ فرید‘‘ کو میں نے پڑھا اس کتاب میں خواجہ فرید نے جگہ جگہ روہی یعنی چولستان کی سرزمین سے محبت کا اظہار فرمایا ہے ۔ آج میں دیکھ رہا ہوں تو تھل کے بارے میں بھی انہوں نے اس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس سرزمین کو وادی ایمن اور اس کے ٹیلوں کو کوہ طور سے تشبیہ دیکر اسے تقدس سے بھی سرفراز فرمایا، خواجہ فرید فرماتے ہیں : وادی ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہِن کوہ طور تھل کے بارے میں بہت سی روایات ہیں ، ایک روایت کے مطابق صدیوں پہلے یہاں دریا بہتا تھا ، دریا نے رخ بدلا تو یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو گیا ،یہ بھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں برس پہلے سمندر کا حصہ تھا، تھل میں آپ جائیں تو تھلوچی یا تھلوچڑوں کو اب بھی امید ہے کہ روٹھا ہوا دریا ایک دن مان جائے گا اور دریا بہتا رہے گااور تھل ایک بار پھر سرسبز شاداب وادی بنے گا ، یہ ر وایت سن کر مجھے چولستان یاد آیا کہ چولستان کے باشندے بھی نسل در نسل اس آس امید پر زندہ ہیں کہ ’’ رس گیا ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی روٹھ جانے والا دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر بہے گا۔