اپنی بھتیجی کی وفات پر دھریجہ نگر تھا کہ فون آیا رانا اعجاز محمود فوت ہو گئے ہیں ۔ صدمہ گہرا ہو گیا ۔ رانا اعجاز محمود سیاستدان نہ تھے مگر ان کی سیاسی بصیرت سیاستدانوں سے بڑھ کر تھی ۔ تعلقات بنانا اور تعلق کو نبھانے کا ہنر انہیں آتا تھا ۔ وہ حقیقی معنوں میں افسر تعلقات عامہ تھے ۔ قریباً بیس سال پہلے ان سے ملاقات ایک تقریب کے موقع پر ہوئی ، تقریب میں ان کا خطاب روایت سے ہٹ کر تھا ۔ ملازمت میں ہونے کے باوجود انہوں نے وسیب کی بات کی اور قوموں کے وطن اور ان کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بتایا ۔ دوران خطاب انہوں نے تھل کی محرومی اور غریب تھلوچی کے مسائل کا ذکر کیا ، تقریب کے اختتام پر ان سے ملا اور اپنے بارے بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں تو خود آپ سے ملنے کے لئے بیتاب تھا ، آپ کے کالموں نے مجھے غائبانہ طور پر آپ کا دوست بنا رکھا ہے ۔میں نے تھل کا ذکر کیا تو رانا صاحب نے کہا کہ میرے بزرگ انڈیا سے آئے لیکن میں یہاں پیدا ہوا ، تھل کا رہائشی ہوں ، تھل کے ذرے ذرے سے محبت کرتا ہوں ۔ تھل میرے روح میں بسا ہوا ہے ، میں تو کہتا ہوں کہ میرا نام رانا اعجاز محمود کی بجائے تھل کا تھلوچی ہونا چاہئے ۔ ڈائریکٹربہاولپور آرٹس کونسل رانا اعجاز محمود کا کورونا ٹیسٹ پازٹیو آیا تھا لیکن وہ اس جان لیوا مرض سے صحت یاب ہو گئے تھے، بعد ازاں ان کو دل کی تکلیف پر بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ رانا اعجاز محمود ڈگری والے ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ نہ تھے بلکہ حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے آدمی تھے۔ رانا صاحب نے سرکاری ملازمت کا آغاز ایم ڈی اے سے کیا ، بعد ازاں انہوں نے محکمہ تعلقات عامہ جوائن کر لیا اور لیہ سے آغاز کرتے ہوئے 23 سال لیہ میں ہی سروس کی ،کچھ سال قبل محکمانہ پروموشن کے باعث انہیں ڈائریکٹر تعلقات عامہ بہاولپور تعینات کیا گیا ، تین ماہ قبل انہیں ڈائریکٹر آرٹس کونسل بہاولپور کا چارج دیا گیا۔ وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان خان بزدار اور سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور نے رانا اعجاز محمود کی محکمہ تعلقات عامہ کیلئے گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ رانا اعجاز محنتی اور فرض شناس افسر تھے ۔ بہاولپور آرٹس کونسل آنے پر خوش نہیں تھے ، اس کے باوجود انہوں نے یادگار پروگرام کرائے ، فنکاروں کو امدادی چیک تقسیم کرنے کی تقریب تھی ، صدارت کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری کی تھی اور مہمان خصوصی کے طور پر مجھے بلا لیا ، کمشنر صاحب سے اتنی محبت کے ساتھ تعارف کرایا کہ کمشنر صاحب وسیب کے دیوانے ہو گئے ۔ 14، 15 فروری کو جیپ ریلی تھی ، جیب ریلی کے موقع پر پنجاب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے سرائیکی کلچرل پروگراموں کو نظرانداز کیا وسیب کی طرف سے احتجاج ہوا کمشنر بہاولپور نے ضلعی انتظامیہ اور بہاولپور آرٹس کونسل کے اشتراک سے چولستان کلچرل شو کا انعقاد کیا ، جو کہ بہاولپور کی تاریخ میں ایک یادگار پروگرام تھا ۔ اس موقع پر کمشنر صاحب نے اعلان کیا کہ 13 مارچ 2020ء کو ’’ سرائیکی وسیب ڈینھ ‘‘ ہوگا ، اس دن سرائیکی مشاعرہ ، سیمینار ، سرائیکی موسیقی اور سرائیکی فیسٹیول کے رنگا رنگ پروگرام ہونگے ۔ رانا اعجاز نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ ان پروگراموں کو ترتیب دیا۔ رانا صاحب اچھے دوست کے ساتھ اچھے منتظم بھی تھے مگر بعض اوقات وہ اپنے ماتحتوں سے تلخ نوائی سے کام لیتے مگر بہت جلد ہی ان کو احساس ہوجاتا اور وہ سوری کر لیتے ۔ رانا اعجاز محمود سے قربت اس قدر بڑھی کہ وہ ملتان آتے تو مجھ سے ملے بغیر نہ جاتے اور میں ان سے ملنے جاتا تو دفتر سے گھر لے جاتے اور مجھے کوئی ایسی رات یاد نہیں کہ بارہ بجے سے پہلے رخصت ملی ہو ، اکثر وہیں پر سو جاتا ۔ انکی گفتگو اور انکا جنرل نالج ہم جیسے طالب علموں کیلئے مینارہ نور تھا، ایک دن میں نے فون کیا کہ بہاولپور آ رہا ہوں ، سندھ سے دو مہمان آئے ہیں ، نور محل ، سنٹرل لائبریری اور بہاولپور شہر کی سیر کرنی ہے ، اسٹیشن پر خود لینے آئے اور بہاولپور کی سیر کے دوران ساتھ رہے اور مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کیا ۔ رانا اعجاز محمود سے قربت کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر دکھ سکھ مجھ سے شیئر کرتے ۔ ان کا ٹرانسفر ہوا تو بہت رنجیدہ تھے اور بہاولپور کے ایک سیاستدان کو کوسنے دے رہے تھے ، میں نے حوصلہ دینے کے انداز میں کہا کہ ملازمت اور تبادلہ لازم ملزوم ہیں ، رانا صاحب نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر عمر کے اس حصے میں جب کہ میری صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی، مجھے تکلیف دی جا رہی ہے۔ وہ علیل ہوئے تو بہاولپور گیا ، بہاولپور آرٹس کونسل کے پروگرام آفیسر ملک ذکا اللہ نے بہت کوشش کی مگر ملاقات نہ ہو سکی وہ اس وقت بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں تھے ، رانا صاحب کی محرومی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انکی اولاد نہ تھی ، ایک بھائی کی بیٹی اور ایک بھائی کے بیٹے کو اولاد بنایا ہوا تھا ۔ رانا اعجاز محمود کتاب دوست تھے ، جب بھی نئی کتاب ان کو بھیجتا تو خوش ہوتے ، لیکن وہ مجھے بار بار کہتے کہ سرائیکی میں سیاسی لٹریچر اور جنرل نالج بک کی کمی ہے ، اس طرف توجہ دیں ۔ صوبے کے مسئلے پر وہ اتنے زیادہ کلیئر تھے کہ صوبے کی افادیت پر گھنٹوں تک بات کرتے ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبہ بنے گا تو میں سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر پہنچ سکتا ہوں ، ورنہ نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے کہ صوبہ وسیب کی شناخت پر ہونا چاہئے ورنہ ہمارا صوبہ دوسرے درجے کا صوبہ کہلائے گا ۔ ان کا موقف تھا کہ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں کہ میری پیدائش یوم آزادی پر (14 اگست 1964ء ) کو ہوئی مگر میرا پاکستان میرے تھل اور میرے چوک اعظم سے شروع ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے ، اس لئے میں خود کو سرائیکی کہنے پر فخر محسوس کرتا ہوں گو کہ میرے والد رانا محمد رفیق محمود صاحب کو میری یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ انکی رگوں میں راجپوت خون ہے اور شاید میرے بھائی خالد محمود ، جاوید محمود بھی شاید اس کو اچھا نہ سمجھتے ہوں لیکن میرا ایک بھائی ناصر محمود دبئی میں ہے ، اسے یقینا قومی مسئلے کا ادراک ہوگا ۔ اس کے ساتھ رانا اعجاز محمود نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے صوبے کا مقدمہ خراب کیا جا رہا ہے ، محمد علی درانی کے بعد چوہدری طارق بشیر چیمہ نے کمان سنبھال لی ہے، ان حالات میں ایک سوال ہے کہ کیا ہم اپنی زندگی میں صوبے کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکیں گے ؟