پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تین برس مکمل کرچکی ہے۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آبادکے کنونشن سینٹر میں اپنی تین برسوں کی کارگزاری پیش کی لیکن یاران نکتہ داںکہاں مطمئن ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ملک کے بنیادی اسٹرکچر میں اصلاحات لانے کی بھرپور کوشش کی تاکہ ان قومی تنازعات ، مسائل اور ایشوزکا پائیدار حل تلاش کیا جاسکے جو ملکی ترقی کی راہ میں اکثر روڑے اٹکاتے ہیں۔چونکہ ان مسائل کے حل کے لیے بے پناہ توانائی، سیاسی عزم اور وقت درکار ہوتا ہے لہٰذا ماضی میں حکمران کا طرزعمل اس مصرے کی ماند رہا ؎ دہلیز کو چوم کر چھوڑ دیادیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے۔ مثال کے طور پر قیام پاکستان کے بعد ایک الیکشن بھی ایسا نہ کرایاجاسکا جس کی شفافیت اور ساکھ پر سیاسی جماعتیں اور رائے عامہ کو اعتماد ہوتا۔ شکست سے دوچار ہونے والے مبارک باد پیش کرکے کارمملکت عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے نہیں کرتے بلکہ الیکشن کے بعد احتجاجی سیاست کا نیاڈول ڈالا جاتاہے۔نت نئے اتحاد تشکیل پاتے ہیں جو حکومت کو سانس لینے کی مہلت تک نہیں دیتے کہ وہ تعمیر وترقی یا طویل المعیاد منصوبوں پر کام کرسکے۔ نوے لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی شہری بیرون ملک ملازمت، کاروبار یا پھر مستقبل رہائش پذیر ہیں۔کثیر زرمبادلہ ہی نہیںارسال کرتے بلکہ بے شمار سماجی اداروں کی بھی بھرپور مالی معاونت کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کے حامل بھی ہیں۔ موقع ملے تووہ پاکستان کی معیشت کو چار چاند لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔گزشتہ عام الیکشن میں تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں ووٹنگ کا حق دے گی تاکہ قومی معاملات میں وہ بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں عملی اقدامات کرے۔ حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یہ حق دینے کا اعلان بھی کردیا ہے لیکن اپوزیشن کے تعاون کے بغیر یہ قانون سازی ممکن نہیں۔ اپوزیشن نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نوے لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا چاہتی ہے یا انہیں قومی امور میں شریک کرنا چاہتی ہے۔ کل تک کسی کو احساس تک نہ تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان پہلے دس ممالک میں ہوتاہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیاں تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں سیلاب، خشک سالی اور سخت گرمی نے ملک کے طول وعرض میں عوام کو سخت مشکلات سے دوچار کیا۔کئی ایک عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جنگ یا کسی بیماری سے تباہ ہونے کے امکانات نہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں کروڑوں لوگوں کو ہلاک کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ماحولیاتی مسائل اور موسمی تبدیلیوں کا بروقت ادراک کرکے شجر کاری کا ایک عظیم الشان منصوبہ تشکیل دیاتاکہ ان خطرات کی رفتار کو سست کیا جاسکے اور بتدریج اس مسئلہ سے نجات حاصل کی جاسکے۔ چنانچہ گزشتہ تین برسوں سے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی گئی۔ حکومت نے اربوں روپے اس منصوبے پر خرچ کیے۔ حتیٰ کہ اب ملک بھر میں درختوں کی حفاظت کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ لوگ گھروں کی چھتوں پر بھی نرسرسیاں بنارہے ہیں تاکہ وہ ماحولیاتی آلودگی سے ملک کو بچا سکیں۔دنیا بھر کے اداروں نے حکومت پاکستان کے بلین ٹری منصوبے کو سراہا اور اسے ماڈل کے طور پر سعودی عرب سمیت کئی ایک ممالک میں بھی اختیار کیا جارہاہے۔ فلاحی ریاست کے تسلسل میں وفاقی حکومت نے قومی صحت کارڈ کے عنوان سے جو منصوبہ شروع کیا اس نے نہ صرف معاشی طور پر کمزور بلکہ آبادی کے تمام طبقات کو بلاکسی تفریق کے فائدہ پہنچایا۔ خیبر پختون خوا، آزادجموں وکشمیراورگلگت بلتستان کی لگ بھگ سوفیصد آبادی کو قومی صحت کارڈ کی سہولت دستیاب ہے۔ درجنوںایسے افراد سے ملاقات ہوئی جنہوں نے صحت کارڈ کے ذریعے اپنا علاج معالجہ ہی نہیں کرایا بلکہ امراض قلب، جگر اور کینسر جیسے موذی اور مہنگی بیماریوں کا مفت علاج کرایا۔ حالیہ تین برسوں میںکامیاب اور ہنر مند جوان پروگرام کے تحت اربوں روپے بطور قرض نوجوانوں کو دیئے گئے تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔ بینکوں کے ذریعے گھروں کی تعمیر کے لیے سستے قرضوں کی فراہمی بھی ایک انقلابی پروگرام ہے جو نہ صرف بتدریج آگے بڑھ رہاہے بلکہ بینکوں کی مدد سے ایسے لوگ بھی گھر بنارہے ہیں جو کل تک اپنا گھر تعمیر کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ایسے بے شمار منصوبے ہیں جو گزشتہ تین سالوں میں شروع ہوئے اور بتدریج معاشرے میں سماجی تبدیلی اور معاشی بہتری لارہے ہیں۔ خاص طور پر کمزور طبقات کو اوپر اٹھانے میںکلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔لیکن چونکہ حزب اختلاف اور میڈیا کے اکثر اداروں کی توجہ اپوزیشن کی سرگرمیوں، مہنگائی اور روزمرہ کے ہنگاموں پر مرکوز رہتی ہے لہٰذا ان منصوبوں کی مناسب اور جائز تشہیر نہیں ہوپاتی۔ ماضی کی حکومتوں کا سارا زور ان منصوبوں پروسائل خرچ کرنے کا تھا جو عوامی مقبولیت کا باعث بنیں۔ چلتے پھرتے لوگوں کو نظر آئیں۔ اربوں روپے کا سرکاری بجٹ خرچ کرکے سرکاری منصوبوں کی کم اور حکمران کی ذاتی تشہیر زیادہ کی جاتی۔موجودہ حکومت نے ان اللے تللوںپر خرچ کرنا بند کیا تو فطری طور پر چیخ وپکار تو ہونا ہی تھی۔ سو وہ ہورہی ہے اور زیادہ تر قومی نوعیت کے منصوبوں کی افادیت پر گفتگو ہی نہیں ہوتی۔ نئے سماج کی صورت گری راتوں رات ممکن نہیں ۔ یہ برسوں اور عشروں کی ریاضت اور تسلسل مانگتی ہے۔ سیاسی نظام اور نوکر شاہی ہی نہیں عوام بھی تبدیل ہونے میں وقت لیتے ہیں۔ تین یا پانچ سال کافی نہیں۔ تسلسل چاہیے۔