اب مکمل افراتفری کا سماں ہے۔ کاروباری لوگوں کے نزدیک فصل سنبھالنے کا وقت آ گیا ہے اور ہر آڑھتی چاہتا ہے کہ اس کی آڑھت پر کل فصل ڈھیر ہو جائے اور اس کی اجارہ داری مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے۔ کھیلنے والے اور کھلوانے والے پوری کاروباری دیانت اور سیان پت سے اپنے اپنے مورچوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ پیسہ نجانے کہاں سے آتا ہے اور کیسے آتا ہے؟ ایک سادہ آدمی ہونق بنا دیکھتا ہے اسے بالکل سمجھ نہیں آتی کیونکہ وہ تو اپنی دنیائے شکم کا اسیر ہے۔ اس کے نزدیک سب حساب کتاب روٹی سے شروع ہوتا ہے اور روٹی پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ زبان ان کی بے طاقت ہے اور حوصلے ان کے بے ہمت ہیں۔ فریاد کرنے کا وقت نہیں۔ روٹی کمانے کے مواقع نہیں۔ سیاست کی دنیا میں ہر ٹیم ہی سیاست کھیلتی ہے اور سیاست ان کے نزدیک یہ ہے کہ طاقت اور اختیار کے مرکز کو قابو کیا جائے اور اس اختیار کو اپنی ذات کی شہرت اور اپنی تجوری کی دولت کے لیے استعمال کیا جائے۔ سیاست کے میدان کے کھلاڑیوں کا گیند بلا، ہاکی فٹبال سب کچھ ہی عوام ہوتے ہیں اور الیکشن دنوں میں عوام کو کھیل کا سامان بنا کر اس بری طرح سے کھیلا جاتا ہے کہ گیند کا ہر ٹانکہ ادھڑ جاتا ہے۔ فٹبال کی شکل بدل جاتی ہے اور ہاکی کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ ابھی تو الیکشن آئے نہیں۔ جب آئیں گے تو نئے رنگ ہوں گے اور وعدے و عہد کی نئی بولیاں۔ الیکشن ایک ایسا کاروبار ہے جس میں بڑے پیمانے کا جوا ہوتا ہے جو ہار گئے۔ وہ ذرا کمزور ہو گئے لیکن جرأت مند روایتی جوئے باز بڑے ہی کینہ مشق ہوتے ہیں۔ کسی کا مال لگاکر ، جذبات کو ابھارنا اور سبز باغوں کی پیشگی نیلامی کا وقت بھی یہ الیکشن جوئے باز ہی جانتے ہیں۔ ابھی الیکشن کمیشن کے ذمہ داران کا تعین ہونا تھا۔ بڑی موروثی پارٹیوں نے اپنے آئندہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک فرد پر لڑائی کی۔ کچھ اپنی مرضی کے تابع اپنے زرخرید حمائتیوں کو الیکشن کمیشن میں داخل کرنا چاہتے تھے اور کچھ لوگ سیاست کے ترازو میں اپنا وزن برابر کرنے کے لیے شور مچا رہے تھے۔ خیر سے الیکشن کمیشن بنا اور ہر اس نے اپنے محبین اور محسنین کے لیے آسان ماحول پیدا کرنے کے اقدامات کئے اور کچھ لوگوں کو بے ہمت کرنے کا فریضہ ناحق بھی ادا کیا۔ الیکشن کمیشن کو اپنے خالص مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا بھی کئی پارٹیوں کا اہم مسئلہ ہے اور یہ پارٹیاں دراصل مفاد پرستوں کا ایک منظم اور چھتری یافتہ گروہ ہوتی ہیں۔ روزانہ اخبارات کی سنسنی خیز خبروں میں قانون کی اوٹ میں چھپ کر ناجائز مفاد حاصل کرنے والے افسران کی خفیہ حرکتوں کا بیان سامنا آتا ہے۔ یہ تفصیلات محض خبر کی حد تک یہی ہوتی ہیں اور ان تفصیلات میں کئی شرفا کا نام اور کردار بہت ہی مدہم سا نظر آتا ہے۔ کئی وابستگان خبر اپنے باوثوق ذرائع سے رابطہ رکھنے کے لیے سیکرٹریٹ، ڈائریکٹوریٹ اور دیگر سرکاری مراکز میں اپنے محسنین سے باقاعدہ ملاقات کرتے ہیں۔ ماضی میں ایک صاحب جن کا ورود جنوبی پنجاب سے ہوا تھا۔ قلم دوات ساتھ ہی لائے تھے۔ ایک سمجھ دار افسر نے انہیں تبادلہ قلمدان سپرد کر دیا۔ وہ پنجاب سیکرٹریٹ میں دن بھر فائلیں پڑھتے، دیکھتے اور شام کو بڑے صاحب کے ساتھ مرغن ما حضر تناول فرمانے کے بعد ایسی ایسی پیش گوئیاں ثبت قرطاس فرمایا کرتے تھے کہ کارکنان قضا و قدر بھی ان کی بشریت پر رشک کرتے تھے۔ یہ ہماری سیاسی اور انتظامی پیشہ وارانہ سستی اور کاہلی کا ایک ایسا رویہ ہے جو بڑھتا چلا گیا اور معیار و مقاصد از خود شکست تسلیم کرتے گئے۔ اب کاروبار برائے سیاست اور سیاست برائے کاروبار کا جو رجحان مستقل نظر آتا ہے، یہ ایک مستقل رو ہے لیکن خربوزہ چھری کے نیچے ہو یا چھری خربوزے کے نیچے ہو۔ نیچا تو عوام ہی کو دیکھنا پڑے گا۔ بہت سادہ سی اکیڈمی ہے ان من چلے لوگوں کے لیے الیکشن کا ماحول، کسی نے ایک مقولہ اپنے بزرگوں کا بیان کیا کہ ایک بچے نے اپنی موروثی مفلوک الحالی سے تنگ آ کر پوچھا کہ بابا جی بتائیں کہ یہ مہنگائی اور غریبوں کی اشیاء ضروریہ تک نارسائی کی کہانی کب ختم ہوگی؟ سیانے بزرگ نے جواب دیا کہ بیٹا امیر ہو جائو، بچے نے پھر پوچھا کہ امیر کیسے بن سکتے ہیں۔ بزرگ نے جواب دیا کہ جو لوگ نئے نئے امیر بنتے ہیں ان سے دوستی کرلو۔ ان کی صحبت میں رہ کر تمہیں بھی امیر بننے کا طریقہ آ جائے گا۔ بچہ پھر گویا ہوا کہ ان سے دوستی کیسے کی جائے؟ بزرگ نے جواب دیا کہ تم جو کام بھی کرتے ہو، اس میں کوتاہی کرو، اگر کوئی تمہاری کوتاہی پر تمہاری باز پرس کرے تو پورے اعتماد سے اور پورے آداب کے ساتھ جھوٹ بولو اور اس جھوٹ میں اداکاری اتنی معصومانہ ہو کہ تمہاری معصومیت پر باز پرس کرنے والے کو حیرت زدہ ہونا پڑے۔ وہ حیران ہو جائے اور پھر پریشان ہو جائے اور آخر کو تمہیں اپنے بااعتماد ملازموں میں بڑی تنخواہ پر شامل کرلے۔ نجانے کب سے یہ بچہ اور اسی طرز کے بچے بڑے ہو کر نو دولتیوں کی معاون کھیپ میں شامل ہو چکے ہیں۔ سول سروسز کے وہ افراد جو غریب گھروں سے اٹھے اور سیاسی حکومتوں میں نو دولتیے سیاسی حکمران کی نظر عنایت میں آئے، ان کی غربت کا احساس کمتری اور خیال برتری یکجا ہوئے تو انہوں نے بھی نئی سکیمیں ایجاد میں ظلم کی طرز نو میں رنگ آمیزی کا نیا تعارف پیش کیا۔ یہ انتظامی کارندے کسانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ مزدوروں کو بے کسی کی زنجیریں باندھتے ہیں۔ غریب کسانوں کی موروثی پونجی کو برباد کرنے کے لیے اونے پونے ان کی آباد زمینوں کو خریدتے ہیں اور وسیع پیمانے پر نئی آبادی کا اشتہار دیتے ہیں، پھر چھوٹے چھوٹے خبر بازوں کو بھی ایک قطعہ زمین دینے کی کنڈی لگاتے ہیں۔ کاروبار شروع، کسان بے دخل اور بے گھر، زرعی زمینیں بانجھ، یہ زرعی ملک نہیں رہا۔ زرعی زمینوں پر تو پہاڑ نما اونچی اونچی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں اور بے مقصد بڑے بڑے گھریلو فارم تیار کئے جا رہے ہیں۔ غریب کی زمین اور مکان دونوں ہی اس سے چھین لیے گئے۔ نو دولتیے غریبوں کا خون نچوڑنے کے لیے اپنے مقرب مڈل مین کو نشے میں مست رکھتے ہیں۔ سیاست، دولت اور انتظام و بندوبست ایک تکون بن گئے ہیں۔ نام نہاد اور مفاد پرست الیکشن بازوں نے بیرونی ڈوری کے اشارے پر جو رقص ابلیسی شروع کیا ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ قومی اداروں کی بربادی کا راستہ کھولا جارہا ہے اور کچھ ذیلی سیاستدانوں کو نیم مجذوب بنا کر اپنی مرضی کے بیانات برائے افتراق ملت دلوائے جا رہے ہیں۔ کچھ ذیلی سیاسی اتحادوں کی سرپرستی میں نہیں پوری اشیر آبادی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایسے سیاستدان جو مسلکی نمائندگی کا بھرم دار دعویٰ رکھتے ہیں لیکن وہ کسی بھی دور حکومت میں اپنے مفاداتی نظریات کی تکمیل کے لیے کشتی اقتدار میں سوار رہتے ہیں اور مذہب کے نام پر مذہبی اقدار کے تحفظ سے نہایت درجہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اورپھر بھی نہایت ڈھٹائی سے مذہب کے محافظ ہوتے اور مذہبی رہنمائی کا دعویٰ کرتے اور مختلف مواقع پر حکومتی اور اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی خدمات کو برائے فروخت عام کردیتے ہیں۔ اسمبلی میں تمام مسالک کے ذمہ داروں کی نمائندگی موجود تھی لیکن ایک مبنی بر غلط اقدام ہوا اور پھر بات شاہراہوں کی بندش تک آئی۔ حکومت ڈھیٹ بنی رہی ہے اور فرعونی طرز انکار تھا۔ مذہب کے نمائندہ بھی خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے۔ مسائل کی طرز بدلتی گئی۔ وہ لوگ جو بیرون اسمبلی احتجاج کر رہے تھے، انہیں غیر مقبول رویہ اختیار کرنا پڑا۔ منکرین ختم نبوت نے اپنے لیے ایک عافیت کا راستہ تلاش کیا اور احتجاج کرنے والوں پر غیر اخلاقی رویوں کو عام کرنے کا الزام دھرا۔ مذہب بیزار زبان دراز اور قلم باز پوری قوت سے ختم نبوت کی اہمیت کو نظرانداز کرنے کی مہم کو تیز تر کر رہے تھے۔ اسمبلی میں موجود مذہب نمائندہ لابی حکومت کی زبان بن کر اصل مسئلے سے قوم کی توجہ ہٹانے میں مشغول رہی۔ حکومتی کارندے اپنے غلط اقدام پر اصرار کرتے رہے۔ آخر فوج نے ایک سلامتی کا راستہ تلاش کیا اور فوج کی یہ مداخلت بروقت اور درست تھی کہ کثیر تعداد میں جانی نقصان کا اندیشہ بڑھ رہا تھا اور ایک نئی طرز کے مذہبی فسادات پھوٹنے کا شدید خدشہ تھا۔ حالات معمول پر آئے تو نااہل وزیراعظم کو اعتراض ہوا کہ حالات کو درست کرنے کے لیے فلاں فلاں نے کیوں اپنا کردار ادا کیا۔ سیاسی پارٹیاں خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں کی طرز پر چلائی جا رہی ہیں اور لوٹ مار کرنے کے رواج کو جھوٹ بول بول کرشریفانہ اور خاموش فروغ دیا جارہا ہے۔ تختہ مشق اول آخر عوام ہیں اور سیاسی قزاقوں کا پیٹ اس وقت تک ہل من مزید کے نعرے بلند کرتا رہے گا جب کوئی آسمانی انتقامی بلا ان کو اچک نہ لے۔