نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ بالآخر آچکا۔سابق اور نااہل وزیر اعظم اول الذکر مقدمے میں مجرم پائے گئے، سات سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا پائی اور ثانی الذکر میں باعزت بری ہوئے۔ نیب نے شریف خاندان کے خلاف جو تین ریفرنس ، العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ دائر کئے تھے ان سب کی بنیاد گلف اسٹیل مل تھی جو نواز شریف ہی کے قومی اسمبلی میں خطاب کے مطابق ان کے والد محترم نے ستر کے اوائل میں دبئی میں قائم کی اور اسی کے اوائل میںاڑھائی ارب روپے میں فروخت کردی۔بعد ازاں اپنی جلاوطنی کے زمانے میں نواز شریف نے العزیزیہ اسٹیل مل جدہ میں لگائی جسے جون 2005ء میں ڈھائی ارب روپے میں ہی فروخت کردیا گیا۔ ان ہی دو اسٹیل ملز کی فروخت سے لندن میں پراپرٹی خریدی گئی اور نواز شریف کے بقول پاکستان سے اس جائیداد کی فروخت کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں لیا گیا۔اسی العزیزیہ مل کے متعلق فیصلے میں نکتہ اٹھایا اور بنایا گیا ہے کہ جلا وطنی کے دنوں میں پیسہ آیا تو کہاں سے؟ گلف اسٹیل ملز ہی کے پچیس فیصد حصص فروخت سے جو قلیل سرمایہ یعنی چوالیس کروڑ حاصل ہوئے، اس سے العزیزیہ بھی قائم ہوئی اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ بھی۔ رزق حلال کی یہی تو برکتیں ہیں۔ ہما شما کے نصیب میں یہ برکتیں کہاں۔ بعد ازاں ان جائیدادوں کو جسٹیفائی کرنے کے لئے قطری خدمات حاصل کی گئیں اور نواز شریف کے خالو اور میاں شریف کے ہم زلف میاں طارق شفیع بھی میدان میں آگئے۔نواز شریف بالترتیب قومی اسمبلی میں اپنی تقریر، قطری خط اور طارق شفیع سب سے مکر گئے۔کل ملا کر ان کی جائیدادوں کی خریدو فروخت اور نئی جائیدادوں کی تفصیل کا خلاصہ ایک لطیفے میں پوشیدہ ہے ۔کوئی منطق پڑھا ہوا کسی حلوائی کی دکان پہ پہنچا اور اس سے ایک پاو جلیبی طلب کی۔حلوائی نے دے دی۔اس نے جلیبی واپس کی اور کہا اس کے بدلے گلاب جامن دے دو۔ حلوائی نے گلاب جامن دے کر پیسے مانگے۔منطقی نابغہ صاف مکر گیا اور بولا وہ تو میں نے جلیبی کے بدلے لئے۔حلوائی نے کہا اچھا جلیبی کے پیسے تو دو۔ اس نے کہا وہ تو میں نے واپس کردی تھی۔قانون جانے، احتساب عدالت جانے، عدلیہ جانے، نیب جانے اور ملزم جانے اور اس کی منطق۔ لراجی بینک سے رائے ونڈ منی لانڈرنگ اور حبیب بینک نیویارک برانچ کی اسی باعث بندش جس کا بھاری جرمانہ کس کی جیب سے گیا، ایک سوالیہ نشان ہے ۔ہل میٹل کیس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اگر اس میں نواز شریف دھرے گئے تو دبئی سے بمبئی تک سب ہل کر رہ جائیں گے۔سات سال قید اور صرف چند ارب روپے اس سوالیہ نشان کا نقطہ ہیں۔کون ہلا اور کس نے ہلایا کون پوچھے؟ محترم ارشد شریف کو میرا مشورہ ہے کہ وہ آئندہ کسی تحقیقاتی رپورٹ میں اتنا مغز نہ کھپائیں۔خوامخواہ ہم عامیوں کی نیندیں اڑتی ہیں۔اب کیا ہم لمبی تان کے سونا بھی چھوڑ دیں؟ ادھر اومنی گروپ کی قلابازیاں ہیں۔کھربوں کے گھپلے ہیں۔سندھ بینک شاید بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ ایک خاندان کو نوازا جائے۔سولہ ارب روپے کی مالیت والا بینک چوبیس ارب کے قرضے جاری کردے جبکہ قانونی طور پہ وہ چار ارب قرضے جاری کرنے کا مجاز ہو تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔اس کا مطلب ہوتا ہے کہ قرضے کبھی واپس نہیں ہونگے بینک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔یہ خسا رہ قومی خزانے سے پورا ہوگا۔سندھ بینک کے قیام سے پہلے تین صوبوں میں صوبائی بینک موجود تھے یعنی بینک آف پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بولان بینک جو بعد ازاں مائی بینک بن گیا۔پیپلز پارٹی کے دور میں جب سندھ بینک کے لائسنس کے لئے اسٹیٹ بینک کو درخواست دی گئی تو پہلے بیل آئوٹ کے لئے مبینہ طور پہ باقاعدہ پول بیٹنگ کی گئی۔ایسا صرف زرداری صاحب کی نیک نامی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ یہ کرپشن کی کہانیاں کوئی آج کی پیداوار تو نہیں ہیں۔یہ جعلی اکاوئنٹس،کھربوں کی جائیدادیں، بے حساب اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں کیا ایف آئی اے کو آج معلوم ہوا ہے؟ایف آئی اے کے ایک سربراہ ہمارے سابق وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے جنہوں نے نواز خاندان کی کرپشن پہ دو سو صفحات کی ہوش ربا رپورٹ تیار کی تھی۔گزشتہ دنوں جب پاناما کیس کا غلغلہ اٹھا تو موصوف نے اس پہ سے گرد جھاڑ کر میڈیا کے سامنے لہرائی بھی تھی۔ آج یہی ایف آئی اے کسی اور کی سربراہی میں موصوف کے باس کا کچا چٹھا کھو ل رہی ہے۔جائے عبرت یہ نہیںہے۔جائے عبرت یہ ہے کہ اگر اس قوم کا مفاد کسی کو عزیز ہوتا اور قومی خزانے کی لوٹ مار کا غم واقعی کسی کو لاحق ہوتا تو احتساب کے اس عمل میں دہ دہائیاں نہ لگتیں لیکن کیس تو بلیک میل کرنے کے لئے بنائے گئے اور رپورٹیں میثاق جمہوریت اور این آر او کی نذر ہوگئیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ نواز شریف کرپٹ ہے یا زرداری بدعنوان ہے۔بات یہ ہے کہ ملک پہ باری باری دو خاندان حکومت کرتے رہے ہوں اور دن بدن عوام کی حالت زار پہلے سے بدتر ہوتی جائے۔ ادارے تباہ ہوجائیں۔ انصاف دہائیاں دیتا پھرے۔ ملک کا مستقبل تعلیمی اداروں میں علم و فن کی تحصیل کی بجائے سڑکوں پہ رلتا نظر آئے،صحت کا شعبہ رو بہ زوال ہو، عورتیں رکشوں میں بچے جنتی پھریں اور ان کے مرد، ان کی پردہ پوشی کے لئے چادریں تاننے پہ مجبور ہوں۔آئے روز ننھے بچے کسی نہ کسی بیماری یا غفلت اور لاپرواہی کے ہاتھوں زندگی کا پہلا سال بھی نہ دیکھ سکیں۔ طبیبوں کی بے حسی کا یہ عالم ہو کہ مریض دم توڑ رہا ہو اور وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پہ ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہوں اور حکومت کے کان پہ جوں نہ رینگ رہی ہو۔عمومی صحت کا یہ حال ہو کہ خون کے نمونے اکٹھے کئے جائیں تو آدھی سے زیادہ آبادی ہیپاٹائٹس اور یرقان کی خاموش مریض نکلے۔ حفظان صحت کا یہ عالم ہو کہ ملک کا منصف اعلی چیخ اٹھے کہ عوام کو کیا کھلایا پلایا جارہا ہے ۔ملکی معیشت کا یہ حال ہو کہ مصنوعی انجکشن لگا لگا کر اسے ہوش میں لایا جارہا ہو اور اس بات پہ خوشیاں منائی جائیں کہ روپے کی قدر گرنے نہیں پائی۔ صنعتیں تباہ ہوچکی ہوں۔ زراعت بے حال ہوچلی ہو یہاں تک کہ ایک زرعی ملک وہ تیتر بن جائے جو آدھا بٹیر بھی نہیں رہتا۔ تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست۔ بندہ کوچہ گرد ہی نہیں در در خوار خاک پھانکتا پھر رہا ہو اور خواجے لوہے کے چنے بنے اینٹھتے پھر رہے ہوں۔ ستر سال نہ سہی،صرف گزشتہ پندرہ سال کی حکومتوں کا وائٹ پیپر اس عوام کو شائع کرنے کا حق مل جائے تو ہر ورق آنسووں سے بھیگا ہوا ہو اور اسے قرطاس ابیض نہیں نامہ اعمال کہا جائے۔ امریکہ سے ایکواڈور تک اور اس سے نیچے جہاں قطب جنوبی شروع ہوجاتا ہے کرپشن کہاں نہیں ہوتی لیکن جہاں حکومتیں اپنے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کی پابند ہوتی ہیں وہاں ٹیکس بڑھنے پہ عوام سڑکوں پہ آتے ہیں کسی بدعنوان کی گرفتاری کے خلاف نہیں اٹھتے۔