قرۃ العین کا آگ کا حیران کن ناو ل آگ کا دریا پڑھتے ہوئے بار بار خیال آرہا تھا کہ بعض لکھاری زمان و مکان کی حدود توڑ کر لکھتے ہیں۔ یہ تحریر بھی زمانوں بلکہ قرنوں پر محیط ہے۔ یہ تاریخ اور وقت کو برصغیر کے جغرافیہ سے منسلک کررہا ہے۔ یہ چوتھی صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے اورآزادی کے بعد تک چلتا ہے۔ اس کے کردار، اپنے اپنے عہد سے منسلک ہیں۔ لگتا ہے زمان و مکان میں اور گزرے عصر میں گندھے ہوئے ہیں۔ پھر اخبار کے کالم کی طرف رخش خیال پلٹتا ہے۔ کرنٹ افیئرز، حالات حاضرہ اور عصر حاضر کے کردار ، اور وہ بھی سیاسی۔ کیا خبر کو گوندھ کر کالم بنتا ہے یا خبر کو تراش کر؟ طویل بات ہے۔ میچور طالب علم سوال کرتا ہے کیا پاکستان کے حالات میں بھی کوئی جوہری تبدیلی آئے گی؟ جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ ماضی حال اور مستقبل کے نقوش ضرور دکھاتے ہیں۔ دھندلے ہی سہی، معدوم ہی سہی۔ ڈاکٹر علی شریعتی کا کہنا تھا کہ یہ جو جمہوریت ہے … یہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔ زردار طبقوں کی۔ حکومت کی خوگر اشرافیہ کی۔ مستقل حاکم اور ازلی محکوم طبقات۔ کارل مارکس ہو کہ علی شریعتی ان کا اپنا اپناتجزیہ ہے اور حل بھی۔ زبردست امریکی مسلمان سکالر ولی نصر نے اپنی ایک کتاب میں مسلم ممالک کے ان مڈل کلاس طبقات پر تفصیل سے بات کی ہے جو مسلم معاشروں کے ازکار رفتہ سسٹم میں راستے بنا کر پرانی راہیں بدل رہے ہیں۔ کبھی میاں نوازش شریف بھی اربن اپر مڈل کلاس کے صنعت کار ہی تھے۔ پتہ نہیں ضیاء الحق کے من میں کیا تھا؟ کیا وہ جاگیردار سیاستدان کی روایتی سیاست کی جگہ اپر مڈل کلاس کی اربن سیاست کے خواہاں تھے؟ یا انہیں نواز شریف بھا گئے تھے؟ یاد پڑتا ہے نواز شریف کے مقابل پیر پگاڑا کے بہت قریب یوسف رضا گیلانی بھی تھے اور پھر پرویز الٰہی بھی۔ اگر یادداشت درست ہے تو اس میں نواب آف کالا باغ کے خاندان کے پیر الٰہ یار بھی تھے۔ پھر ضیاء الحق لاہور تشریف لائے۔ پیر پگاڑا کے دست شفقت کے باوجود یوسف رضا گیلانی پنجاب کے تاجدار کی یہ ریس نہ جیت سکے۔ جنرل غلام جیلانی، ضیاء اور شریفس کے درمیان سہولت کار بن گئے اور وقت کی آنکھ نے شریفس کا وہ عروج دیکھا کہ معمولی دکاندار سے اعلیٰ درجے کے پاور بروکرز تک سبھی ان ہی کا دم بھرتے تھے۔مگر فطرت اور قدرت کے اپنے اصول ہیں۔ زوال آیا تو پھر پورے کمال سے آیا۔ آج پاکستانی سیاست کے بڑے سوالوں میں ایک یہ بھی ہے کہ کیا شریفس کا عہد تمام ہوگیا؟ زیادہ پرانی بات نہیں۔ شہباز شریف چیف منسٹر تھے۔ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم۔ پانامہ برپا ہوچکا تھا۔ ایک انتہائی باخبر میڈیا پرسن کو پاور کوریڈرز کی تفصیلی سیاحت کا موقع ملا۔ بعد از سیاحت ان سے سیر حاصل تبادلہ خیال ہوا۔ حاصل غزل بات یہ تھی کہ کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ صبح گیا یا شام گیا۔ ہر ملک میں ایک اسٹبلشمنٹ ہوتی ہے۔ سیاست کے ہنگام اور مقبول چہروں سے ذرا دور اور پرے۔ عوام کی جذباتیت، سطحیت اور کم نظری سے اور بھی دور۔ ہر ریاست کی ہیئت حاکمہ کے اجزاء مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہیں۔ اگر میاں نواز شریف نظریاتی ہوتے تو تاریخ انہیں نظریاتی ہی لکھتی۔ مگر وہ ایک اچھے باپ تھے، بھائی اور شوہر بھی مگر جس کام کے نام پر وہ ملکی سیاست کے اُفق پر رفتہ رفتہ ابھرے تھے، اس کی انہوں نے شکل اور کیمسٹری ہی بگاڑ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اگر مزدور کو بگاڑا تو نواز شریف نے صنعت کار،ٹریڈرز، بیوروکریسی اور سیاست کو بگاڑ دیا۔ منی لانڈرنگ سائنس بن گئی۔ سندھ اور لاہور والوں کے لیے کرپشن کلچر بن گئی۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر۔ بڑے گھروں اور کاروں کا سیلاب آگیا۔ جسے شوکت عزیز جیسے لوگ ترقی کہتے تھے۔ ایک خاص طرح کے مزاج کے سیاستدان، صنعت کار، بیوروکریٹ اور تاجر پرموٹ ہوتے چلے گئے۔ اس سب میں کچھ ایسا بھی ہوا کہ ملکی سلامتی کے ضامن حلقوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ جدید تصور تو نہیں مگر اٹل حقیقت ہے کہ ملکی سلامتی کا وطن کی اکنامکس کے ساتھ بہت گہرا ربط ہے۔ آج کے عہد کی جنگیں بارڈر کے علاوہ بھی بہت سے میدانوں میں لڑی جاتی ہیں۔ معاشی میدان، نفسیاتی علاقے، میڈیا کی وکٹ پر، کلچر اور سوشل میڈیا بھی۔ اسے Hybird Warبھی کہتے ہیں اور ففتھ جنریشن وار بھی۔ شریفس کا عہد ان سب سے بے نیاز کسی اور ہی میدان میں مزید آگے بڑھنے کی جہد مسلسل میں مصروف کار تھا۔ کہانیاں اور قصے بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت شریفس ملکی سیاست کے افق سے دست بردار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ مؤثر حلقے ان کی سیاست کے تابوت میں کافی کیلیں ٹھونک چکے ہیں۔ پانامہ کے ہنگام میں چھوٹے میاں صاحب کی لائن، لینتھ اور بیانیہ، مریم نواز اور بڑے میاں صاحب سے ایک سو اسّی ڈگری پر تھا۔ انہیں کہا گیا کہ آپ الگ ہوجائیں۔ مگر وہ کہنے لگے گورننس میری اچھی ہے مگر ووٹ میاں نواز شریف کا ہے۔ مؤثر حلقوں کو انتظار رہا مگر چھوٹے میاں صاحب وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے رہے۔ نتیجہ؟ دونوں آئوٹ ہوگئے۔ اس وقت دونوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ بڑے میاںصاحب چاہتے ہیں کہ انہیں سیاست چھوڑ کر باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔ ان سے مکالمہ کرنے والے انہیں کہتے ہیں کہ جو باہر ہے اس کا ایک صحت مند حصہ واپس کرو۔ وہ کہتے ہیں میں تو چاہتا ہوں مگر جن کے پاس یہ ہیں وہ لے کر نہیں دے رہے۔ مریم اپنا بیانیہ بدل سکتی ہیں اگر انہیں رعایت مل جائے تو۔ چھوٹے میاں صاحب کا خیال ہے کہ اگر مریم اور بڑے بھائی مستقل طور پر وطن بدر ہوجائیں تو عمران کے بعد ان کی باری آنے کے امکانات بھی ہیں۔ مگر ان کے گلے ناقابل تردید کرپشن پڑ چکی ہے۔ سونے پر سہاگہ سلمان اور حمزہ کے ابنارمل اثاثہ جات ہیں۔ مؤثر حلقے موجودہ تجربے کے زیادہ اچھے نتائج نہ ہونے کے باوجود فی الحال شریفس کے لیے سیاست میں کسی کردار کو نہیں دیکھتے۔ شریفس کے لیے دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے کہ عمران خان کا سیاسی متبادل ہے ہی نہیں۔ اس سیاسی خلا کو کون پُر کرے گا؟ بلاول یا شریفس؟ عمران خان کی گورننس اگر ڈلیور نہیں بھی کر پاتی تو بھی شریفس کے لیے ملکی سیاست میں جگہ سکڑ رہی ہے۔ عمران خان کسی بھی این آر او کے خلاف ہیں مگر یہ پچھلا دروازہ کھلا رہے گا۔ بلاول کے لیے آگے جا کر کوئی دروازہ کھل بھی سکتا ہے مگر کافی دور اور دیر سے۔ تیرے بھی صنم خانے … میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی … دونوں کے صنم فانی