معزز قارئین!۔ گام ؔ ۔ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ’’ پائوں،ؔ قدمؔ اور وہ مسافت ؔجو چلنے میں دونوں پائوں کے درمیان رہے۔ لگامؔ کو بھی گام ؔ ہی کہتے ہیں اور سُست رفتار گھوڑے کو بھی ‘‘ ۔ ’’ تیز گام ‘‘ کے معنی ہیں ’’ جلدی جلدی قدم اُٹھانے والا‘‘۔ انگریزی لفظ "March" کے معنی ہیں ’’ نپی تُلی فوجی چال سے چلنا‘‘۔ فضل اُلرحمن صاحب کے بزرگ انگریزی زبان سے سخت نفرت کرتے رہے ہیں لیکن، 28 جولائی 2019ء کو کوئٹہ میں (بقول اُن کے ) اُنہوں نے اپنی جمعیت عُلماء اسلام کے "Million March" کے شُرکاء سے خطاب کرتے ہُوئے ، وزیراعظم عمران خان کو خبردار کِیا تھا کہ ’’ اگر اُنہوں نے اگست کے آخر تک استعفیٰ نہ دِیا تو، جمعیت عُلماء اسلام (ف) اپنی دوسری اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر اکتوبر میں اسلام آباد تک ’’ آزادی March‘‘ کرے گی۔ حالانکہ اُنہیں اصولی طور پر "Freedom March" کہنا چاہیے تھا؟۔ میرا فضل اُلرحمن صاحب کو مفت مشورہ ہے کہ ’’ وہ اپنے ’’ آزادی مارچ ‘‘ کا نام ’’ تیز گام آزادی‘‘ رکھ لیں‘‘۔ 30 اکتوبر بروز بدھ ، ہمارا مقّدس مہینہ ربیع اُلاوّل شروع ہو چکا تھا ۔ اِس مہینے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ’’12 ربیع الاوّل کو ، پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان، سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وَسلم کی یاد میں عید میلاد اُلنبی ؐ مناتے ہیں !‘‘۔ آج 2 نومبر کو 4 ربیع الاوّل ہے۔ کیا فضل اُلرحمن صاحب عید میلاد اُلنبی ؐ تک اپنا ’’ تیز گام آزادی‘‘ جاری رکھیں گے؟ابھی ’’ تیز گام آزادی‘‘ اسلام آباد میں داخل نہیں ہُوا تھا کہ ’’ 2 ربیع الاوّل 31 اکتوبر کو صبح 6 بج کر 32 منٹ پر کراچی سے لاہور، راولپنڈی اور پشاور جانے والی تیز گام ایکسپریس میں آگ بھڑکی اور 74 مسافر زندہ جل گئے۔ 58 مسافروں کی لاشیں مسخ ہوگئیں( اُن میں سے بیشتر کا تعلق تبلیغی جماؔعت سے تھا) ‘‘۔ خبروں کے مطابق ’’ 90 زخمی مسافروں کی حالت تشویش ناک تھی/ ہے۔ اُنہیں علاج کے لئے"Army Helicopters"کے ذریعے ، رحیم یار خان ، بہاولپوراور ملتان کے ہسپتالوں میں داخل کرا دِیا گیا ‘‘۔ مبینہ طور پر ٹرین کی زنجیر ناکارہ تھی اور ٹرین میں آگ بجھانے کے آلات بھی غائب تھے؟ ۔ لیاقت پور، جینی گوٹھ نانوری سٹیشن کے قریب ٹرین میں آگ لگی تو ، کئی مسافروں نے ٹرین سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا بیان ہے کہ ’’ ٹرین میں سوار تبلیغی جماعت کے مسافروں نے ٹرین میں "Salender" جلا رکھے تھے ۔ ٹرین کے ایک ڈرائیور اور گارڈ نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی لیکن، وہ نہیں رُکے اور آگ جلاتے رہے‘‘۔ خبروں کے مطابق ’’ شیخ رشید احمد نے ’’سانحہ تیز گام ایکسپریس ‘‘میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس مبلغ 15 لاکھ روپے اور ہر زخمی کو 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کِیا ‘‘ ۔ ہمارے یہاں یہی رواج ہے ۔ جب بھی کوئی شخص، زلزلے ، سیلاب یا کسی اور سانحہ خاص طور پر خُود کُش حملے کا شکار ہوتا ہے تو، حکومت ِ وقت کی طرف سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو اِسی طرح کا ’’زرِ تلافی ‘‘ دینے کا اعلان کِیا جاتا ہے ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ’’قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے ’’دیو بند داراُلعلوم‘‘ کے کانگریسی مولویوں کی باقیات ؔکے قائم کردہ دینی مدارس میں پڑھنے ، پرورش پانے اور پھلنے پھولنے والے طلبہ (جنہیں طالبان کہا جاتا تھا / ہے) نے پاکستان کی مساجد ، امام بارگاہوں ، اولیائے کرامؒ کے مزارات اور دوسرے کئی سماجی اور تعلیمی اداروں پر خُود کُش حملہ کر کے رُسوائی حاصل کی اور اُن کے سہولت کاروں نے بھی؟ ۔ خُود کُش حملے میں جاں بحق (شہید) ہونے والوں کے لواحقین کے لئے حکومت کی طرف سے فی کس 5 لاکھ روپے اور زخمی ہونے والوں کے لئے 2 اڑھائی لاکھ روپے دینے کا رواج تھا / ہے ۔ 16 مارچ 2012ء کو اسلام آباد کے ایک جریدہ میں اِس موضوع پر بے روزگار اور زندگی سے بیزار پاکستانیوں کی ہمدردی میں میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی ایک نظم کا شعر تھا … ملین ہاف ؔکا ، خوا ب سُہانا ، اچھا لگتا ہے! خُود کُش حملے ، میں مر جانا ، اچھا لگتا ہے ! معزز قارئین!۔ آپ یہ تو جانتے ہیں ہوں گے کہ "Half Million" کے معنی ہیں ’’ پانچ لاکھ روپے ‘‘ ۔ صدر مملکت جناب عارف اُلرحمن علوی ، وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، حکومت ِ پاکستان کے دوسرے اکابرین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین ، میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، اسفند یار ولی خان، جناب سراج اُلحق اور فضل اُلرحمن صاحب وغیرہ نے بھی ’’ تیز گام ایکسپریس‘‘ میں جاں بحق ہونے والے مسافروں کے جاں بحق اور زخمی ہونے پر اُن کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کِیا ہے ۔ مَیں نے ایک نیوز چینل پر دیکھا اور سُنا کہ ’’ فضل اُلرحمن صاحب تو، جاں بحق ہونے والے ’’تبلیغی جماعت ‘‘ کے ارکان کو شہید ؔبھی قرار دِیا تھا/ ہے۔ اِس سے مَیں بہت خُوش ہُوا ہُوں ۔ انگریزی لفظ "Express" کے معنی ہیں ’’ تیز رفتار گاڑی ، جو بہت کم درمیانے سٹیشنوں پر ٹھہرتی ہے‘‘۔ کراچی سے رائے وِنڈ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جانے والے تبلیغی جماؔعت کے ارکان کو بھی بہت جلدی تھی ۔ یعنی وہ خُود بھی ’’تیزگام‘‘ تھے ۔ اُن کی ’’ تیز گامی‘‘ کے بارے میں مجھے ایک شاعر کا شعر یاد آیا ہے کہ … اے جذبۂ دِل ، گر مَیں چاہوں ، ہر چیز مُقابل آ جائے! منزل کے لئے ، دو گام ؔچلوں ، اور سامنے منزل آ جائے! معزز قارئین! ۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے کہ’’ فضل اُلرحمن صاحب نے تبلیغی جماعت کے جاں بحق ہونے والے ارکان کو شہید قرار دِیا ہوگا؟‘‘ ۔ کیونکہ فضل اُلرحمن صاحب ، اُن کی جمعیت عُلماء اسلام کے سیکرٹری جنرل عبداُلغفور حیدری صاحب اور جماعت اسلامی کے (مرحوم) امیر قاضی حسین احمد نے تو، (3 سے 11 جولائی 2007ئ) تک اسلام آباد کی لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف "Operation Sunrise" ۔کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے بارے میں اسلام آباد میں 12 جولائی 2007ء کو ایک مشترکہ کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ امریکی مفادات کے لئے ہم اِس آپریشن میں جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں سمجھتے‘‘۔ قاضی حسین احمد تو اِس دُنیا میں نہیں ہیں لیکن، مَیں حیران ہُوںکہ ’’ اُس کے بعد ہماری کسی بھی سیاسی اور عسکری قیادت نے فضل اُلرحمن صاحب اور عبداُلغفور حیدری صاحب کے اِس فتوے کا نوٹس کیوں نہیں لِیا؟‘‘۔ صُورت یہ ہے کہ’’اسلام آباد کے ’’ تیز گام آزادی ‘‘ کی اخلاقی مدد کرنے والوںمیں مسلم لیگ (ن) نے تو، سانحہ تیز گامؔ کے فوراً بعد ’’ تیز گام آزادی‘‘ کے جلسۂ عام کو منسوخ کرنے کا اعلان کردِیا تھا ۔ اُس کی وجہ یہ کہ ’’ شریف خاندان کے مکانات بھی رائے وِؔنڈ میں ہیں لیکن، کیا رائے وِنڈ میں تبلیغی جماعت کے قائدین نے اُس وقت "Mind" نہیں کِیا ہوگا جب، 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی سالگرہ ، وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ پر اپنی نواسی ( مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسم حناء پر بھارتی وزیراعظم شری مودی کو (اپنے لائو لشکر سمیت ) اپنے گھر رائے وِنڈ میں مدّعو کر لِیا تھا اور وہاں مودی جی کو اپنی والدۂ محترمہ شمیم اختر المعروف ’’ آپی جی ‘‘ سے بھی ملوایا تھا؟۔ فضل اُلرحمن صاحب کے "Show" میں 31 اکتوبر کو بلاول بھٹو مختصر تقریر کر کے اپنی اخلاقی حمایت کا ثبوت دے گئے تھے لیکن، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار خان ولی نے تو، کمال ہی کردِیا جب’’ تیز گام آزادی‘‘ کے شُرکاء سے مخاطب ہو کر اُنہوں نے کہا کہ ’’ یہ کیا آپ مجھے غلاظت میں لے آئے (یعنی۔ نجاست ، ناپاکی ، گندگی ) یہاں تو کوئی سسٹم ہی نہیں ہے ؟ ‘‘۔ معزز قارئین!۔ نہ جانے فضل اُلرحمن صاحب کے ’’ تیز گام آزادی‘‘ کے بارے میں کون کون اور کیا کیا کہے گا؟۔ مَیں کیا کہہ سکتا ہُوں؟۔