گزشتہ تین چار صدیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایسی دنیا بھی نظر آئے گی جہاں روز کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ نیا ہوتا ہے۔ وہ وہ ایجادات سامنے آتی ہیں جن کا کبھی تصور بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ایک شعبے میں نہیں سینکڑوں شعبوں میں خلق خدا کی فلاح کے لیے ایسی ایسی سہولتیں وجود میں آئی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پہلے وطن میں جن کا خط نہ آنے سے مائیں مضطرب و بے چین ہو جایا کرتی تھیں اب وہ سات سمندر پار سے جب چاہتے ہیں‘ جس وقت چاہتے ہیں‘ گھر سے دفتر سے یا اپنی گاڑی سے ویڈیو کال کر کے اپنی مائوں کی دعائیں لیتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ یہاں کچھ نیا نہیں‘ کچھ بھی تازہ نہیں‘ وہ پرانی آرزوئیں ‘ وہی بوسیدہ تمنائیں‘ وہی نامنظور دعائیں‘ وہی سپنے‘وہی خواب سہانے ‘وہی شکاری پرانے‘ بیچارا شکار بھی وہی ہے۔ شکار گاہ بھی وہی ہے۔ یہاں انقلاب کے دعوے ہیں وہی نعرے پرانے ہیں مگر حقیقت میں انقلاب کوئی نہیں۔ انقلاب کیسے آتا ہے؟انقلاب آتا ہے جب سوچ بدلتی ہے‘ جب اپروچ بدلتی ہے‘ جب آرزو بدلتی ہے اور بدلی ہوئی آرزو کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے اپنی شخصیت کا رنگ و روپ بدلتا ہے‘ اپنی لیڈر شپ کا انداز بدلتا ہے اور ان کے شب و روز بدلتے ہیں جو اس بات کے غماز ہوتے ہیں کہ اب یہاں کچھ کچھ بدل چکا ہے اور بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ مگر عملی حقیقت کیا ہے اسی کو تو شاعر نے بڑے بھر پور انداز میں بیان کیا ہے۔ ؎ نہ تم بدلے ‘ نہ دل بدلا‘ نہ دل کی آرزو بدلی میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں گزشتہ روز لاہور کی ایک بڑی دانش گاہ میں ممتاز ماہر تعلیم دانشور اور میڈیا سٹڈیز کے استاد ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی بلائی گئی انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں جرمنی کے سفیر مسٹر مارٹن کابلر نے دوستانہ گرم جوشی اور خطیبانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہنستے مسکراتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی اور ہم کالم نگاروں اور اخبار نویسوں کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے روز مرہ موضوعات سے ذرا ہٹ کر دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی نظر ڈالا کریں اور گلوبل وارمنگ جیسے ایشوز اور خلائی دنیا میں ہونے والی نئی تحقیق کا بھی جائزہ لیا کریں۔ مجھے یاد ہے کہ چند برس پیشتر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بے تکلف بات چیت کے دوران سپین کے سفیر نے مجھے کہا کہ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں بے پناہ امکانات ہیں مگر تم پاکستانیوں کے اندر پتہ مار کر کام کرنے اور نئی جستجو کی عادت نہیں۔ مولانا مودودیؒ نے بھی یہی بات کہی تھی کہ ہماری قوم بڑی مخلص ہے۔ دل درد مند رکھتی ہے اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے مگر اس میں پتّہ مار کر کام کرنے کی عادت نہیں۔ بیچارے اسپانوی سفیر کو تو شاید ابھی اتنی ہی بات معلوم ہوئی ہو گی اس کی رسائی اس حقیقت تک تو نہ ہو گی کہ پاکستانی قوم کے لیڈر اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی مارنے میں دنیا میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے اسی قوم کے کڑیل جوانوں اور عقل و دانش کی باتیں کرنے والے بزرگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جب ان کے قائدین پاکستان کی تباہی کا سودا بیچنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ کیوں نہیں روکتے اور ان سے برملا اختلاف کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں ادراک و عرفان ہو یا نہ ہو مگر دنیا ہمیں بار بار خبردار کر رہی ہے کہ پاکستان میں پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں تین دریا تو پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے حوالے کیے جا چکے ہیں اور دریائے سندھ پر مجوزہ ڈیم کو خواہ مخواہ متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کیس کی عدالتی معاونت کے لیے جس شخص کو بلایا ہے وہ موزوں ترین شخصیت ہے ۔جناب انجینئر شمس الملک واپڈا کے چیئرمین رہے ہیں۔ ان کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے۔ انہوں نے عدالت میں جو کچھ کہا اسے دل تھام کر سننے یا پڑھنے سے پہلے ذرا اپنے ملک کے زمینی و اقتصادی منظر نامے پر ایک نظر ڈال لیں۔ اگر پاکستان پانی کا مسئلہ حل نہیں کرتا تو وطن عزیز دریائوں‘ مون سون بارشوں اور گلیشئرز کے پگھل کر آنے والے پانیوں کے باوجود صحرا بن جائے گا۔ یہاں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے ۔کراچی میں سمندر کی قربت کے باوجود ڈیڑھ دو کروڑ انسان بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بچے اور ان کے بچے پانی راشننگ سے حاصل کریں گے۔اس ملک کی جو صورت حال ہونے جا رہی ہے اس کے بارے میں جناب شمس الملک نے اپنی ماہرانہ رائے بھی دی اور ڈیم نہ بنانے کی صورت میں پاکستان کی جو خوفناک اور بھیانک تصویر ہو گی اس سے بھی نہایت درد مندی کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستانی قوم کو آگاہ کیا۔ عدالت عظمیٰ میں شمس الملک کی کالا باغ ڈیم کے بارے میں رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کے ہر مخالف سے میری ملاقات ہوئی وہ میری بات تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ڈیم فنی اعتبار سے درست اور پاکستان کے لیے ناگزیر ہے مگر انہیں پنجاب پر اعتماد نہیں ۔جبکہ تربیلا ڈیم کا پانی معاہدے کے مطابق پنجاب کو زیادہ آبادی ہونے کے باوجود صرف 20فیصد اور سندھ کو 70فیصد ملتا ہے ۔کے پی کے کو 4فیصد اور بلوچستان کو 6فیصد ملتا ہے ۔شمس الملک نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کے پی کے حکومت اور اے این پی کو بھی بریفنگ دی‘ اے این پی کے ایک سینئر رہنما نے مجھے کہا بیگم ولی خان کو منا لیں۔ شمس الملک نے عدالت کے روبرو کہا کہ ڈیم نہ بنانے والوں نے ملک سے ظلم کیا۔ بیگم ولی خان نے کہا ڈیم کو سونا بھی ثابت کر دیں تو نہیں خریدیں گے۔ جہاں انا پرستی اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہو وہاں دلیل اور منطق بے چاری نڈھال ہو جاتی ہے۔ یہی بات آج کل اسفند یار ولی کہہ رہے ہیں کہ کسی کا باپ بھی کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکتا ۔انجینئر شمس الملک اور دیگر ماہرین پہلے بتا چکے ہیں اب پھر وہی بات دوہرا رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے صوبہ کے پی کے اور سندھ میں آنے والے سیلابوں کی روک تھام ہو سکے گی۔ بنجر زمینوں کو سیراب کرنے‘ سستی ترین بجلی کی وافر مقدار میں فراہمی کے لیے اور قیمتی پانی کو سمندر میں گرنے سے بچانے کے لیے زراعت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے صنعتوں کی ترقی کے لیے اپنے بے روزگار مزدوروں اور ماہرین کو روزگار دینے کے لیے کالا باغ ڈیم ناگزیر ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کے پی کے کی 5لاکھ ایکڑ زمین کو پانی مل سکے گا۔ سندھ کی بھی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہو گی۔ کالا باغ ڈیم بنانے سے بجلی تقریباً ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ پڑے گی۔ جبکہ تھرمل بجلی ہمیں ساڑھے بارہ روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے۔ اتنا آبی خزانہ ہونے کے باوجود ہم صرف 24فیصد بجلی پانی سے اور باقی درآمد شدہ تیل سے بنا رہے ہیں اور یوں اپنی انا پرستی اور نادانی کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم نہ ہونے کی صورت میں ہمیں سالانہ 196ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ بدترین قسم کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اکیلے کالا باغ ڈیم سے جو بجلی پیدا ہو گی ماہرین بتاتے ہیں کہ اہل پاکستان اسے ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ حاصل کر کے اپنے چولہے اور ہیٹر بھی بجلی پر جلا سکتے ہیں جیسے امریکہ میں جلاتے ہیں۔ گزشتہ چالیس برس میں سیاست دانوں نے ایک ڈیم نہیں بنایا ملکی اداروں کو ذاتی ملازم سمجھا‘ قومی خزانے کو شیرمادر سمجھا اور اس ’’لٹ دے مال‘‘ کو وہ مختلف طریقوں اور حربوں سے لے کر بیرون ملک گئے جہاں انہوں نے اپنی اولاد کے ناموں پر اور ٹرسٹس اور کمپنیوں کے نام پر اپنی بے نامی جائیدادیں بنا لیں اور ملک کو مقروض اور کنگال کر گئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی پسند کے دو گروہوں میں تقسیم ہیں وہ بجائے اس کے کہ ہر گروہ کے چودھری سے پوچھیں کہ آپ نے مرکز یا صوبوں میں برسر اقتدار آ کر ہمارے لیے کیا کیا‘ ان سے پوچھیں کہ تیس سال کسی نہ کسی شکل میں برسر اقتدار رہ کر آپ ہمیں پانی نہیںدے سکے ۔بجلی کی خوفناک لوڈشیڈنگ نہ ختم کر سکے۔ ہمیں یکساں تو دور بات بنیادی انسانی حق تعلیم نہ دے سکے ۔ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے اعلیٰ درجے کے نہ سہی معمولی سہولتوں والے ہسپتال بھی نہ فراہم کر سکے۔ اس کے برعکس آپ نے ہمیں اور ہماری اولادوں کو مقروض کر دیا۔ اب آپ نے بیرون ملک اپنے خزانے تو بھر لیے ہیں مگر پاکستان کے پاس کئی صوبوں میں ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے فنڈز نہیں اور ہمیں بیرونی قرضوں کا سود اور ان کی اقساط ادا کرنے کے لیے نہ جانے کن کن ذلت آمیز شرائط پر قرض لینا پڑے گا۔ یہی غیر ملکی ادارے اپنے اپنے ممالک کے سیاسی ایجنڈے کی بناء پر کبھی ہمیں گرے لسٹ میں شامل کریں گے اور کبھی بلیک لسٹ کا ڈراوا دیں گے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی شکاریوں کو بتا دیں کہ اب وہ پرانے کھلونوں سے نہ بہلیں گے بلکہ ایسے منشور لائیں جن میں تاریخ وار درج ہو کہ فلاں مسئلہ کب اور کیسے حل کیا جائے گا؟ مگر ہمارے ووٹروں کی بے نیازیوں اور نادانیوں کا یہ عالم ہے کہ اپنے بچوں کے تاریک تر ہوتے ہوئے مستقبل کو چھوڑ کر وہ اپنی اپنی پسند کی سیاسی ’’پارٹیوں‘‘ کی آنکھیں بند کر کے حمایت کر رہے ہیں اور ان پارٹیوں کے قائدین کی لوٹ مار کی دور اذکار توجیہات اور ان کی ناقابل فہم نادانیوں کی بھی تاویلات کر رہے ہیں ‘ہم کتنے سادہ دل ہیں ہمارے بزرگ ہمیں ستاروں پر کمند ڈالنے کا حکم دے گئے تھے مگر ہمیں اپنے موج میلے سے فرصت نہیں۔ کہنے کو ہم ایٹمی قوت ہیں مگر غربت و جہالت کے تحفے گلے میں لٹکا کر ہم کشکول گدائی لے کر ساری دنیا میں ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں۔ کیا آپ کسی ایسے خاندان یا کسی ایسی قوم کا تصور کر سکتے ہیں جس کے گھر میں قارون کا خزانہ ہو مگر وہ دربدر بھیک مانگتی دکھائی دے۔ ہم ہی وہ قوم ہیں۔ ع ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا ہمارے پاس ایک نہیں دو قارون کے خزانے ہیں۔ ایک بلوچستان کے زیر زمین معدنیاتی اثاثے اور دوسرا خزانہ کالا باغ ڈیم جس سے چاروں بھائیوں کو زبردست فائدہ ہو گا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کے بارے میں ایک پرانے مقدمے کو اوپن کیا ہے اور انجینئر شمس الملک سابق چیئرمین واپڈا کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے شمس الملک نے برحق کہا ہے کہ جو جتنا با خبر ہوتا ہے وہ اتنا ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ انجینئر شمس الملک نے چیف جسٹس کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر میں آپ کا ’’پہلا سپاہی‘‘ ہوں۔ چیف جسٹس تمام سیاست دانوں کو طلب کریں اور کالا باغ ڈیم کے پہلے سپاہی کی قیادت میں ماہرین کو بھی عدالت میں بلا لیں۔ اور سیاست دانوں کو ایک ہی حکم دیں کہ یا قائل ہو جائیں یا قائل کر لیں تیسرا آپشن کوئی نہیں۔