ہاورڈد یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر گراہم ایلیسن کا نام ایک بار پھر امریکی اور مغربی تھنک ٹینکز میں ڈسکس ہونے لگا ہے ،سفارت کاروں ،تجزیہ نگاروں کی آن لائن مجلسوں اورٹیلی وژن کے سنجیدہ نوعیت کے پروگراموں میں اس وقت کورورنا وائرس کے بعد سب سے زیادہ نام پروفیسر کے متعارف کرائی گئی ’’تھوسیڈائڈز ٹریپ ‘‘ کا سننے میں آرہا ہے ،تھوسیڈائڈز ایک قدیم یونانی مفکر،دانشور تھا جس نے اپنے وقت کی دو بڑی قوتوں کے درمیان جنگ کی پیشن گوئی کی تھی،تھوسیڈائڈز کا پہلی بار نام 2017ء میں پروفیسر گراہم کی کتاب میں پڑھنے کو ملا ان کی کتاب ایک ممکنہ عالمی جنگ کے حوالے سے تھی ان کی یہ کتاب اشاعت کے بعد دنوں میں نہیں گھنٹوں میں مقبول ہوئی اور مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرکے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی تصانیف میں سے ایک قرار پائی ،پالیسی سازی ، ،جنگی دفاعی تھیوریوں پر نظر رکھنے والوں کے لئے ان کی کتاب ہاٹ کیک ثابت ہوئی تھی اس کتاب میں اس وقت کے ’’تھوسیڈائڈز‘‘ پروفیسر گراہم ایلیسن نے عالمی طاقت امریکہ اور ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین کے درمیان ہونے والی جنگ کے خطرات پر بحث کی ہے ان کا کہنا ہے کہ جس طرح اپنے وقت کی بڑی قوت اسپارٹا کو ابھرتی ہوئی نئی قوت ایتھنز سے خطرہ محسوس ہوا تو دونوں قوتیں آمنے سامنے آگئیں اسی طرح چین اور امریکہ بھی آمنے سامنے آسکتے ہیں پروفیسر نے یہ کتاب لکھنے کے لئے تاریخ میں پانچ سو برس کا سفر کیا او اس قسم کے سولہ واقعات نکال کر لائے جب ایک بڑی قوت نے اپنی چوہدراہٹ کو کسی سے خطرہ محسوس کیا تو اسکی فوجیں حرکت میں آگئیں۔ پروفیسر ایلیسن کا اپنی کتاب میںکہنا تھا کہ امریکہ اور چین کی عالمی رقابت اب فیصلہ کن مرحلے میںپہنچ چکی ہے ،سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد امریکہ بلا شرکت غیرے ایک عالمگیر طاقت کے طور پر سامنے آیا ،نیو ورلڈ آرڈر امریکہ کی اسی سوچ کی عکاس رہا ہے کہ اب دنیا پر سکہ چلے گا تو امریکہ کا،امریکہ نے اپنی دنیا پر اپنی ’’گرفت‘‘ مضبووط کرنے کے لئے ’’سیاہ مائع ‘‘کو کنٹرول میںکیا ، عربوں کو اپنا تابع کیا اور ایران کی مشکیں بھی کس ڈالیں ،امریکہ کو مذہبی شدت پسندی دوسرے الفاظ میںجہادی مسلمانوں سے پریشانی تھی ،افغانستان میں جہاد کے مواقع اسی نے پروان چڑھائے تھے او ر اب وہ ان مواقعوں کا خاتمے کے لئے بھرپور کوششیں کررہا ہے افغانستان میں اپنے لئے ’’اضطراب‘‘ بننے والی ممکنہ لہر کو دبانے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے اپنی ملٹری قوت میں بھی بھرپور اضافہ کر رکھا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ معاشی میدان میںاپنے ابھرتے ہوئے حریف چین کی پیش قدمی نہیں روک سکا،ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ پہنچنے والی چینی ساختہ اشیاء کی مالیت ساٹھ ارب ڈالر ہے ،جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا دانت کچکچانا فطری امر ہے۔امریکہ یہ بات بھی جانتا ہے کہ چینی مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹے رہنی والی محنتی قوم ہے ،سی پیک کے منصوبے پر واشنگٹن پہلے ہی مرچیں چبائے بیٹھا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ عالمی منڈیوں میںچینی ساختہ اشیاء ایک روڈ کے ذریعے باآسانی پہنچ رہی ہیں اور یہ چینی برآمدات امریکی مفادات کے لئے بڑاخطرہ بن رہی ہیں ،امریکہ کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی خسارے کو کسی طرح کم کرے،2018ء میں امریکہ کا تجارتی خسارہ 59ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھااس خسارے میں چین کی طرف سے پہنچنے والی معاشی زک سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی،اس پر مستزاد مستقبل کے منظرنامے میں چین کے عزائم ہیں 2017ء میں چین میں شائع ہونے والی ایک دستاویز ’’میڈ ان چائنہ2025‘‘ کے مطابق چین ہائبرڈ گاڑیوں، بحری جہازوں کے ہائی ٹیک پرزے، انڈسٹریل روبوٹس، زراعت میں استعمال ہونے والی مشینری، موبائل فون، طیارہ سازی کے میدان میں نت نئی جدتوں کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت پر بھی کام کررہا ہے ،خطرے کی گھنٹی یہیں نہیں بج رہی چینی سرمایہ بڑی بڑی کمپنیاں نگل رہا ہے chen china نامی چینی کمپنی بیج اور کھاد کی سوئس کمپنی سین جینیٹا خریدچکی ہے’’گیلی‘‘ نے سویدش کاریں بنانے والی کمپنی والو پر ہاتھ ڈال دیا ’’زوم لیون‘‘ نے ٹریکس کورپ کو خرید لیا،امریکہ جانتا ہے کہ چینی کمپنیاں ان بڑی بڑی کمپنیوں کو خرید کر ان کی ٹیکنالوجی بیجنگ پہنچا رہی ہیں اسی وجہ سے امریکی صدر نے ’’براڈکام ‘‘ اور امریکی کمپنی کوالکام کے درمیان ہونے والی حصص کی خریداری میں مداخلت کی اور قومی سلامتی کی بنیاد کر یہ ڈیل روک دی۔ موجودہ کورنا وائرس کی وبا پر بھی امریکہ نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجھٹ سے سارا الزام چین پر دھر دیا اور اسے کہیں چائنا وائرس کہا تو کہیں ووہان وائرس کی پھبتی کسی ،ان الزامات کے بعد چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے ،تین روز قبل امریکہ کے جارحانہ مزاج وزیر خارجہ مائیک پومپیونے کھل کر کہا کہ ووہان کی لیبارٹری سے وائرس کے لیک ہونے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،انہوں نے کہا کہ چین میں ایسی تجربہ گاہیں ابھی بھی فعال ہیں جہاں پیچیدہ جرثوموں پر تحقیق ہورہی ہے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے مائک پومپیو نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ چین نے کئی قیمتی دن برباد کئے اورکوروناوائرس کے بارے میں احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں اس انٹرویو کے بعد دونوں ممالک میں ٹوئٹر پر جھڑپیں چھڑ گئیں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فورا ٹوئٹ کیا کہ امریکی وزیر خارجہ جھوٹ بولنا بند کریں عالمی ادارہ صحت نے بھی چینی اقدامات کو سراہا ہے دو بڑی قوتوں میں جاری کشیدگی پاکستان کے لئے کسی آزمائش سے کم نہیں ہے ،چین ہمارادیرینہ حلیف ہے پڑوس میں بھارت کی صورت میں ایک بڑے دشمن کی موجودگی میں چین جیسی بڑی قوت سے جسکے خود بھی بھارت سے تعلقات اچھے نہیں ہمارے دوستانہ مراسم کسی نعمت سے کم نہیں لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے امریکہ کے زیر اثر ہیں ان اداروں نے ہماری وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کو آکسیجن لگا رکھی ہے ہم ان سے بگاڑ بھی نہیں سکتے یہ سب دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ آنے والا وقت ہماری خارجہ پالیسی او رہمارے لئے بھی امتحان ہوگاپروفیسر گراہم ایلیسن گواہی دیتے ہیں کہ ابھرتی ہوئی عالمی قوت جب بھی عالمی قوت کے لئے خطرہ بنی تو طبل جنگ ہی بجا ہے ،تو کیا تیسری عالمی جنگ کے آثار بنتے جارہے ہیں ؟؟؟