تیل کی سیال دولت میں مدہوش پڑے عرب حکمرانوںکو کشمیری مسلمانوں کی دلدوزچیخیں اورشورسلاسل قطعی طورپر سنائی نہیں دے رہاتھااور کشمیر کو اس قدربھول چکے تھے کہ کشمیرکوامہ کامسئلہ قراردینے پرغصیلے ہوکرجناب عمران خان کے پاس دوڑے چلے آئے اوران سے کشمیرسے متعلق اپنی سازشی تھیوری پیش کردی،مورخ وہ سب کچھ لکھ چکاہے اس لئے اس کامکرر تذکرہ یہاں ضروری نہیں۔لیکن خدائے لم یزل کی شان نرالی دیکھ لیجئے کہ کوروناکے ذریعے اس تیل کو پانی کردیا اور عرب حکمران اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے تھے ۔ تیل کی قیمت پانی سے بھی کم ہوکررہ گئی بلکہ امریکہ نے اپناتیل گویامفت دینے کی پیشکش کردی۔سوال یہ ہے کہ وہ عرب حکمران اب اپنے تیل کو کیاکریںجواپنی توجیہات ،تاویلات سے کشمیرکوامہ کامسئلہ تسلیم نہ کرنے پر جناب وزیراعظم پاکستان کودرس دیتے رہے۔تیل کی بے توقیری پریقیناََان کاغم اس دکھ سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے جوکشمیر ی مسلمانوں کوان کی لاتعلقی اورانکی باتوںسے پہنچتارہاہے۔ وہ اپنا اس پرسرپیٹ رہے ہونگے کہ ان کے ساتھ یہ کیاہوگیاکیونکہ کھپت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ۔خدانہ کرے کورونااسی طرح خم ٹھونک کرموجودرہاتوعربوں کو یہ کہہ کر،ترجمہ!یہیں سے لیایہیں اب واپس چلے جائوتیل سمندربرد کرناپڑے گا۔ خدا اپنی قدرت کا اظہاراس طرح بھی کرتاہے کہ کورونا وباکے ذریعے عالمی معیشت کابرکس نکالااورایوان ہائے معیشت وتجارت پرقفل پڑگئے۔ کورونانے نے اپنی دہشت اوروحشت سے سیاہ سونے ’’تیل‘‘کوخاک میں ملادیااور امریکی بازار میں تیل کی قیمت پانی سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔کورونا کی عالمی وبا میں تیل کی کھپت کم ہو جانے اور پیداوار بڑھ جانے کے باعث دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت منفی سطح تک گر گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تیل ساز کمپنیاں مئی میں تیل ذخیرہ کرنے کی سہولیات اور ذخائر بھر جانے کے خطرے کے پیش نظر خریداروں کو خود سے پیسے ادا کر رہی ہیں۔ تیل ساز کمپنیوں کو کرائے پر ٹینکرز لے کر اضافی تیل کو ذخیرہ کرنا پڑ رہا ہے اور اس سبب امریکی تیل کی قیمت منفی سطح تک گر گئی ہے۔ سوموار20 اپریل کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں انتہائی گراوٹ کی وجہ ایک تکنیکی بنیاد بھی بنی کیونکہ تیل کی تجارت اس کی مستقبل کی قیمت سے حساب سے کی جاتی ہے اور مئی تک کے کیے گئے معاہدہ منگل کو ختم ہو رہے ہیں۔لہذا تیل ساز کمپنیاں ان معاہدوں کے تحت خریدے گئے تیل کو متعلقہ ممالک کے حوالے کرنا چاہتی ہیں تاکہ انھیں اس کو ذخیرہ کرنے کے لیے اضافی اخراجات برداشت نہ کرنا پڑیں۔ عالمی سطح پر تیل کی صنعت کواس وقت تیل کی گرتی ہوئی مانگ اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان اس کی پیداوار کو کم کرنے پر اختلافات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔اس ماہ کے آغاز میں ’’اوپیک ‘‘ممبران ممالک اور اس کے اتحادیوں نے عالمی پیداوار میں 10 فیصد تک کمی کرنے کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ معاہدہ تیل کی پیداوار میں اب تک کی سب سے بڑی کٹوتی تھی جس پر اتفاق کیا گیا تھا۔امریکہ سمیت دیگر ممالک نے تیل کی پیداوار کو کم کرنے کے فیصلے کاروباری بنیادوں پر کیے ہیں۔ مگر عالمی سطح پر اب بھی خام تیل کی رسد دنیا کی ضرورت سے زیادہ ہے۔اور مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اس تیل کو استعمال میں لا سکتے ہیں یا نہیں بلکہ ایک بڑا مسئلہ اس کے ذخیرہ کرنے کا بھی ہے۔ کیا ہم اس اضافی تیل کو اس وقت تک ذخیرہ کر سکتے ہیں جب تک دنیا سے کورونا کے باعث نافذ کیے گئے لاک ڈان میں نرمی نہ ہو جائے اور تیل کی مصنوعات کی اضافی طلب نہ پیدا ہو جائے۔ دنیا میں زمین اور سمندر میں تیل کے ذخائر تیزی سے بھر رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو تیل کی قیمت اس سے بھی زیادہ نیچے آنے کا امکان ہے۔عالمی منڈی میں تبدیلی کا دارمدار تیل کی مانگ پر منحصر ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ صحت کے بحران کے بعد کیا حالات سامنے آتے ہیں۔تیل کی سپلائی میں مزید کمی ہوگی کیونکہ نجی شعبے سے تیل کی پیداوار کرنے والے ان کم قیمتوں پر اپنا ردعمل دیں گے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی وجہ سے تیل کی منڈی پر کوئی بنیادی اثر پڑ سکتا ہے یا نہیں۔تاہم اے این زی بینک کے مطابق اس تشویش میں بدستور اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ تیل کی قیمت مائنس یعنی منفی تک اس لئے پہنچ گئیں۔کیوںکہ کورونا کی وجہ سے عالمی معیشت میں کم از کم ایک تہائی طلب ختم ہو گئی ہے، لاکھوں لوگوں کی ملازمتیں جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور بڑی بڑی کمپنیوں کی اربوں ڈالر کی ویلیوپیوستہ خاک ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی اور صنعتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہوئی ہیں۔ اس سب کا اثر تیل کی طلب پر بہت برا پڑا ہے۔ایسے میں اس سب کا اثر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ یوں بھی سعودی عرب اور روس کے درمیان جاری قیمتوں کی جنگ سے پہلے ہی تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی تھی، حالانکہ مہینے کی شروعات میں دونوں ممالک اور کچھ دیگر ممالک نے مل کر تیل کی قیمت بڑھانے کے لیے پروڈکشن میں تقریبا 1 کروڑ بیرل روزانہ کی تخفیف کا فیصلہ کیا تھا، لیکن قیمت میں گراوٹ جاری ہے۔ امریکہ میں مارچ سے آغاز سے تیل کے ذخائر میں پہلے ہی 50فیصد اضافہ ہوا ہے۔