دنیا میں خام تیل کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت بیس سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔لیکن ایک سے زیادہ وجوہ کی بنا پر پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یوں بھی یہ ایک عارضی مندی ہے جو چند ماہ بعد ختم ہوجائے گی۔ گزشتہ ہفتہ تاریخ کا انوکھا واقعہ ہوا کہ امریکہ میں خام تیل کی قیمت چند روز تک منفی میں چلی گئی۔ یعنی تیل بیچنے والے کہہ رہے تھے کہ ہم سے رقم لے لو اور تیل لے جاؤ۔ وجہ یہ تھی کہ امریکہ میں جن بڑے بڑے تاجروں نے تیل کے سودے کیے ہوئے تھے ان کے پاس خریدا ہوا(بُک کیا ہوا) تیل لیکر رکھنے کی جگہ نہیں تھی کیونکہ پہلے سے ذخیرہ شدہ تیل فروخت نہیں ہوا تھا۔ کورونا وبا کی وجہ سے ہر طرح کی نقل و حمل‘ ٹرانسپورٹ بہت کم ہوگئی ہے۔ امریکہ میں تیل کااستعمال ساٹھ فیصد سے زیادہ کم ہوچکاہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے امریکہ کے اندر اور دنیا بھر میںسیاحت رُکی ہوئی ہے۔ ہوائی جہازکا سفر بہت کم ہوگیا ہے۔ ہوائی جہازوں کی صنعت میں تیل کی کھپت آدھی رہ گئی ہے۔جب امریکی تیل کی قیمت منفی میں گئی اس روز پاکستان میں بعض لوگوں میںخاصا جوش و خروش پیدا ہوگیا۔ خوش فہمی کا اظہار ہونے لگا کہ اب پاکستان میںبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیںبہت نیچے چلی جائیںگی۔حالانکہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں امریکی منڈی سے جڑی ہوئی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تیل کی قیمتوں کا تعین لندن سے نکلنے والی تیل کی قیمت یعنی برینٹ سے ہوتا ہے۔ جس دن امریکی منڈی میں قیمت منفی میں تھی برینٹ میں خام تیل کی قیمت تقریبا ًستائیس ڈالر فی بیرل تھی ۔چند روز بعدہی ا مریکی تیل کا نرخ بھی واپس اُوپر آکر ساڑھے سولہ ڈالر فی بیرل پرپہنچ گیا۔ تاہم مجموعی طور پر یہ بات درست ہے کہ اس سال کے شروع کی نسبت عالمی منڈی میںخام تیل کی قیمتیں بہت گر گئی ہیں۔جنوری میںبرینٹ خام تیل کا نرخ ساٹھ ڈالر فی بیرل تھا۔اب یہ قیمت ایک تہائی رہ گئی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے برینٹ کی قیمت اکیس سے اٹھایئس ڈالر کے درمیان اُوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ پہلے تو تیل پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار کم کرنے پر اختلافات ہوئے جس سے تیل کی قیمت گرنا شروع ہوگئی۔ رہی سہی کسر کورونا وبا کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن نے پوری کردی۔ اس شدید بحران سے ڈر کر روس اور سعودی عرب نے اتفاق رائے بھی کرلیا ۔ اوپیک اور روس نے مجموعی طور پر خام تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان کردیا لیکن دنیا میں معاشی سرگرمی اتنی کم ہوگئی ‘تیل کا استعمال اتنا کم رہ گیا کہ قیمت فی الحال واپس اُوپر نہیں جاسکی۔ بظاہر اچھا لگ رہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت کم ہوگئی ہیں لیکن پاکستان جیسے ممالک اس کساد بازاری سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ تیل کی قیمت میں گراوٹ عارضی اور چند ماہ کے لیے ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ تیل کی قیمتیں صرف پانچ چھ ماہ نیچے رہیں گی۔ یورپ اور امریکہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی طرف جارہے ہیں۔ جوں جوں معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی‘ تیل کا استعمال زیادہ ہوگا‘ اسکی طلب بڑھے گی تو اسکی قیمت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ تخمینہ ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ دوبارہ چالیس ڈالر فی بیرل تک بڑھ جائیں گی اور اگلے سال ساٹھ ڈالر تک ہو جائیں گی۔تیل پیدا کرنے والے تما م ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ تیل کی قیمت کم سے کم پچاس سے ساٹھ ڈالر فی بیرل کے درمیان رہیں۔موجودہ حالات میںپاکستان کو ایک فائدہ یہ ہوسکتا تھا کہ تیل کا درآمدی بل کم ہونے سے زرمبادلہ کی بچت ہوجاتی لیکن کورونا وبا کے باعث یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں ہمارا مال جانا بند ہوگیا۔ برآمدات میں شدید کمی ہوگئی۔اس پر مستزاد بیرون ملک پاکستانیوں کی ملک میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر کم ہوگئیں۔اتنافائدہ نہیںہوا جتنا نقصان ہوگیا۔ اسی بحران پر قابو پانے کی غرض سے عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کو فوری طور پر تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کا مزید قرض دیا ہے۔اگر ہماری تیل ذخیرہ کرنے کی استعداد زیادہ ہوتی تو ہم تیل کی موجودہ کساد بازاری سے فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمارا ملک اپنی ضرورت کے صرف بیس دنوں کا تیل ذخیرہ کرسکتا ہے۔ اپریل کے ماہ میں پاکستان کے تمام ذخیرے تیل سے بھرے ہوئے تھے ۔لاک ڈاون کے باعث پیٹرول اور ڈیزل کی کھپت بھی کم ہوگئی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں ہم نے تیل کا ایک جہاز بھی درآمد نہیں کیا کیونکہ ہمارے پاس اسے رکھنے کی جگہ ہی نہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان حکومت پیٹرولیم کی عالمی منڈی میں گراوٹ کے مطابق ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں مزید کم کردے۔ یہ فیصلہ ملک کی معیشت کی کمزور صورتحال دیکھتے ہوئے مناسب اقدام نہیں ہوگا۔وفاقی حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں لاک ڈاؤن کے باعث تین سو ارب روپے سے زیادہ کاخسارہ ہوا ہے۔ کورونا بحران سے نپٹنے کے لیے بارہ سو ارب روپے اضافی خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ ابھی تو اس امدادی رقم میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ مئی کا سارا مہینہ بھی نیم کرفیو میں گزرے گا۔ حکومت کو اضافی وسائل کی ضرورت پڑے گی۔ یہ تو ایک جنگی صورتحال ہے۔ اگر اس وقت حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ کم کر بھی دے گی تو ٹرانسپورٹراوردیگر کاروباری ادارے اس فائدے کو نہ تو صارفین کو منتقل کریں گے نہ حکومت کو زیادہ ٹیکس دیں گے بلکہ یہ تو لاک ڈاؤن سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت سے ٹیکسوں میں چھوٹ اور آسان شرائط پر قرضے مانگ رہے ہیں ۔ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ حکومت پیٹرول‘ ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرنے کے بجائے انہیں موجودہ سطح پر رکھے اور عالمی منڈی میں گراوٹ سے پہنچنے والا فائدہ پیٹرول‘ڈیزل پر ایمرجنسی کورونا ٹیکس لگا کر قومی خزانہ میں ڈالے تاکہ جو اضافی اخراجات ہورہے ہیں ان کے لیے استعمال کیا جاسکے۔