تین عورتیں تین کہانیاں تو آپ نے پڑھی یا سنی ہوں گی۔ آج آپ کو تین پارٹیوں اور ان کی تین کہانیوں کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ یہ تین پارٹیاں،پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں،ان کے علاوہ ایک اور پارٹی بھی ہے، جو ابھی تک نہ توتین میں شمار ہوتی ہے، نہ تیرہ میں اور اس کے بارے میں بھی آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، مگر پھر بھی اس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اور وہ پارٹی ہے ،جے یو آئی۔آج ہم ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے طرز سیاست، ان کے سربراہوں کی سوچ اور ان پارٹیوں کے موجودہ سیاسی حالات میں مقاصد کا جائزہ لیں گے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول، سیاست میں فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں اور جو فیصلے کر لیے جائیں، پھر ان پر قائم رہنا چاہیئں، ورنہ عوام میں مقبول سے مقبول سیاست دان بھی اپنا وقار اور اعتبا ر کھو دیتا ہے، کیونکہ حکمران جو فیصلے کرتے ہیں ، اس کے ملک و قوم پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر جیسے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا بیان دیکر قومی سیاست میں ایک نیا بیانیہ دے دیا ہے ، اس نئے بیانیے سے دو باتیں واضح ہو تی ہیں؛ ایک یہ کہ پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم کی موجودہ سیاست میں اپنی الگ پہچان بنانے اور پالیسی رکھنے پر گامزن ہے اور دوسرا یہ کہ پیپلز پارٹی آئینی حدود سے باہر نہیں جانا چاہتی۔ پیپلز پارٹی ناصرف ضمنی و سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر چکی ہے ، بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے واضح اشارے دے چکی ہے، جن سے یہ بآسانی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی، اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم میں شامل ہو کر بھی کسی فریق کے مفادات پر قربان ہونے کا ارادہ بالکل نہیں رکھتی ہے۔ اب ذرا یاد کریں کہ پی ڈی ایم نے دو تین ماہ قبل کس اندازسے حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تھی؟پی ڈی ایم کی طرف سے کیا کیا پلان اور کیا کیا شیڈول جاری کیے گئے تھے؟ اور کس کس انداز سے احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں وزیراعظم عمران خان کی ٹانگوں کے کانپنے کا مذاق اڑایا گیا تھا، حالانکہ حکومت پر بظاہر تو پی ڈی ایم کی تحریک کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ، آخر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور ان ہائوس تبدیلی پر متفق کیوں نہیں ہیں ؟ پیپلز پارٹی کی عدم اعتماد کی تحریک پر ن لیگی قیادت کو شدید اختلافات شاید اسی لیے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس عدم اعتماد کی تحریک کانتیجہ بھی کہیں سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف لائی گئی تحریک جیسا نہ نکل آئے۔اسی لیے ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے بلاول سے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس مطلوبہ نمبرز پورے ہیں، تو وہ تحریک عدم اعتماد لے آئیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل دنوں بڑی سیاسی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ ماضی میں بھی فکری اختلاف اور مفادات کا ٹکرائو رہا ہے، لہذا ان دونوں پارٹیوں سے یہ امید رکھنا یہ کوئی بڑا سیاسی معرکہ انجام دے پائیں گی، افی الحال ممکن نظر نہیں آتاکیونکہ اپوزیشن اتحاد کی گزشتہ تین چار مہینوں کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔ یہ تو تھی پیپلز پارٹی کی تحریک عدم اعتماد کی کہانی۔ ن لیگ کیا چاہتی ہے اور ن لیگی قیادت کا کیا موقف ہے؟ ن لیگ جانتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی، لہذا وہ لانگ مارچ کے ذریعے حالات کو اس نہج پر لے جانا چاہتی ہے، جہاں پر یا تو عمران خان خود ہی استعفیٰ دے دیں یا پھر عمران خان سے استعفیٰ لے لیا جائے۔بظاہر ان دونوں میں سے کوئی صورت حال پیدا ہوتی نہیں ہو سکتی، کیونکہ ن لیگ کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں تعلقات کی مضبوطی کی وجہ بنا ہے، جس کا ادراک پیپلز پارٹی کو تو ہے ، لیکن شاید ن لیگ کو نہیں۔ اب آتے ہیں پی ٹی آئی اور عمران خان کی کہانی کی طرف، تو وزیر اعظم عمران خان گزشتہ ڈھائی سال سے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ اپوزیشن جماعتیں اپنی کرپشن بچانے کی خاطر ان کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کے اتحاد کا احتجاج کا اصل مقصد این آر اوحاصل کرناہے۔ وزیر اعظم مہنگائی ، کرپشن ، بیڈگورننس سمیت ہر مسئلے کی وجہ سابقہ حکومتوں کو قرار دیتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ جب تک نواز شریف اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر قائم ہیں، اس وقت تک کوئی طاقت انہیں وزارت ِعظمیٰ کے منصب سے ہٹا نہیں سکتی۔اس کے ساتھ حکومت ، اپوزیشن کی طرف سیاستعفوں اور لانگ مارچ کی کہانی سے نکل کرتحریک عدم اعتماد کے لانے کی با ت کو قومی سیاست کے لیے خوش آئند قرار دے رہی ہے، مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی نوبت آئے گی بھی یا نہیں؟ بلاول بھٹو زرداری کا تو یہی کہناہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپنے اتحادیوں کو منالیں گے، مگر ن لیگ عدم اعتماد کی تحریک کی بجائے لانگ مارچ کرنا چاہتی ہے۔ اب پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں کی آخری امید یہی رہ گئی ہے کہ لانگ مارچ کیا جائے کہ شاید وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں، لیکن مولانا فضل الرحمان استعفے دینے کے ہیں، یعنی پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے، جبکہ ن لیگ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنا چاہتی ہے اور مولانا فضل الرحمان اسمبلیوں سے استعفے دینے پر زور دے رہے ہیں۔یوں پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل اپوزیشن کی تین پارٹیوں کی تین کہانیاں اور بیانیے ہیں، جبکہ حکومتی پارٹی کا احتساب کا بیانیہ الگ ہے۔سوال یہ ہے کہ تین پارٹیوں کی تین کہانیوں کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔