پروین ملک لاہور کے ادبی حلقوں میں ایک معتبر نام ہے، ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ مجھ پر خاکہ لکھیں گی، اگر انہیں اس کے لئے اب بھی وقت مل گیا تو یقیناً میرے لئے بڑا اعزاز ہوگا، پروین ملک جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد روزنامہ آزاد سے منسلک ہوئی تھیں، میں اس اخبار میں ان کا جونئیر کولیگ تھا، پروگریسو خیالات کی حامل پروین ملک عورتوں کے حقوق اوران کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف ایک آواز بھی ہیں، آزاد میں وہ سماجی مسائل پر روزانہ کالم لکھا کرتی تھیں، تعلق ایک نامور زمیندار خاندان سے ہے۔ پروین ملک کی ان کے یونیورسٹی فیلو مقبول سے شادی ہوئی، وہ بعد ازاں وفاقی وزارت اطلاعات سے منسلک ہو گئیں، کئی برس تک ہفت روزہ پاک جمہوریت کی ادارت سنبھالے رکھی۔ پھر زندگی کے سنہرے سال ماہنامہ ’’ماہ نو ‘‘ کو دیدیئے۔ اب ریٹائرڈ تو ہو چکی ہیں، مگر اکثر ادبی پنجابی مجالس میں دکھائی ضرور دیتی ہیں۔ برسوں پہلے ان کا اکلوتا بیٹا اوائل عمری میں ہی پتنگ بازی کرتے ہوئے چھت سے گر کر جان بحق ہو گیا تھا، اس سانحہ کے بعد وہ اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ گئی ہونگی؟ یہ سوچ کر ہی لرز جاتاہوں۔ایک دن شاہ حسین کالج میں پروفیسر امین مغل کا پیریڈ اٹینڈ کر رہا تھا کہ اچانک مغل صاحب میری جانب متوجہ ہوتے ہوئے بولے،،، تمہاری فیس جمع ہوگئی ہے؟ ’نہیں،(فیس کے پیسوں سے میںنے ریگل چوک میں سموسوں والی دکان کے ملازم خان کا ادھار چکایا تھا) میرا جواب سن کر پروفیسر صاحب نے مجھے کلاس روم سے نکال دیا اور کہا اب فیس جمع کرانے کے بعد کلاس میں آنا، اس دن میں بہت رنجیدہ ہوا، اچانک میرے دماغ میں پروین ملک کا خیال آیا، میں نے انہیں فون کر دیا، اور انہیں بتایا کہ مجھے ایک سو روپے کی ضرورت ہے اور وہ بھی صبح نو بجے سے پہلے پہلے،،، پروین ملک تھوڑے توقف کے بعد بولیں اچھا، میں آتی ہوں رات دو بجے اخبار کی آخری کاپی پریس میں چلے جانے کے بعد آفس کے سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور میں وہیں باہر گراؤنڈ میں کرسی پر بیٹھا پروین ملک کا منتظر رہا، علی الصبح چاربجے کے قریب ایک رکشہ لارنس روڈ پر آفس کے باہر رکا ، پروین ملک باہرنکلیں، مجھے دیکھ کر مسکرائیں ، کسی سوال جواب کے بغیر سو روپے کا نوٹ مجھے تھمایا اور واپس چلی گئیں۔۔ ٭٭٭٭٭ وہ لڑکی نیو ائر پارٹی میں آئی تھی، ہال میں داخل ہوتے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن گئی، منی اسکرٹ میں گوریوں کو بھی مات دے رہی تھی،اس کے انداز اعلان کر رہے تھے کہ اس کی حکمرانی کے دن ہیں۔ لگتا تھا اس نے بڑے بڑے زاہدوں، عابدوں کی نیتوں میں بھی فتور ڈالا ہوگا، رات کے دس بجنے کو تھے جب شہلا آئی، پارٹی کا باقاعدہ آغاز ہونے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے، شہلا کے آجانے سے گویا وقت ٹھہر گیا، تھوڑی دیر بعد اچانک چہ میگوئیاں شروع ہو ئیں کہ شہلا غائب ہے، اسے تلاش کرنے کے لئے زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی، نیو ائر کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا تھا، بارہ بجنے میں اب صرف دس منٹ باقی تھے،جو لوگ شہلا اور اپنے ساتھی کی ہال میں واپسی کی آخری کوششیں کر رہے تھے،پتہ چلا کہ کہ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے رو رہے ہیں، ان دونوں کی زوردار ہچکیاں بھی سنی گئیں، یہ وہ لمحات تھے جب نیو ائر منانے کے لئے جمع ہونے والے سبھی افراد کے چہروں پہ ہوائیاں اڑنے لگیں، کسی کو سمجھ نہ آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ صرف دس سیکنڈ باقی تھے بارہ بجنے میں کہ وہ دونوں غیر متوقع طور پر کمرے سے باہر نکل آئے، ہال میں زور دار کلیپنگ ہوئی، اس سے پہلے کہ بتیاں بجھادی جاتیں ہال میں ایک زور دار چیخ گونجی۔ شہلا اس پارٹی میں نہیں ناچے گی، کیونکہ یہ میری بہن ہے محفل میں مکمل سکوت چھا گیا، کوئی کسی سے نظر نہ ملا رہا تھا، سب خود کو گنہگار سمجھ رہے تھے،پھر خوفزدہ ہو کر کھسک گئے لیکن شہلا اس نوجوان کی بہن نہیں تھی ، شہلا کا سابق خاوند اس نوجوان کے بڑے بھائی کا دوست تھا۔ ٭٭٭٭٭ ضیاء الحق دور میں دوران قید مجھے ایک رات اچانک دو بجے ساہیوال جیل کی کال کوٹھری سے نکال کر پولیس وین میں لاہور کیمپ جیل منتقل کر دیا گیا، جیل میں سب ساتھی خوفزدہ ہو گئے، انہیں ڈر تھا کہ کسی ٹارچر سیل میں نہ لے جائیں، ان ہمدرد ساتھیوں میں رحیم اللہ یوسف زئی، غازی صلاح الدین ،محمد صوفی، شبر اعظمی اور صبیح الدین غوثی بھی شامل تھے، مجھے کیمپ جیل کی دوسری منزل پر لیجایا گیا ،جو جیل کی بی کلاس تھی، وہاں پیپلز پارٹی کے ایک سابق وفاقی وزیر نے اکیلے ہی ڈیرہ ڈال رکھا تھا، ایک مشقتی اور ایک کھانا پکانے والا بھی تھا، کچا گوشت اور سبزیاں بھی دی جاتی تھیں، کھانا گھر سے بھی منگوایا جا سکتا تھا، یہ سابق وفاقی وزیر میرا ساتھ مل جانے پر بہت خوش تھے، دن گزرا تو انہوں نے، ’’خوش خبری‘‘ سنائی کہ رات کو فلم کا آخری شودیکھنے شمع سینما چلیں گے، رات نو بجے کے قریب میں نے انہیں یاد دلایا کہ فلم دیکھنے نہیں جانا ؟، وہ مجھے ایک نکڑ پر لے گئے، جہاں سے شمع سینما کا روشن سائن بورڈ نظر آرہا تھا، سابق وفاقی وزیر بولے، سینما میں نے دکھا دیا ہے، فلم خود دیکھ لو، شیخ رفیق، ایس ایم مسعود، شیخ رشید ‘جہانگیر بدر، رانا شوکت محمود، اسلم گورداسپوری، افضل سندھو اور حاکمین خان جیسے بے شمار سیاسی راہنما اور کارکن اسی جیل کے مختلف وارڈز میں بند تھے۔ ایک رات میری اور سابق وفاقی وزیر کی گفتگو کا موضوع پیپلز پارٹی کے وہ لاتعداد کارکن تھے جو پاکستان بھر کی جیلوں میں اذیتیں سہہ رہے تھے، کئی ہزار کارکن کوڑے کھانے کا عذاب برداشت کر چکے تھے، سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ اسی کیمپ جیل میں بھی ان کی پارٹی کے بے شمار کارکن بند ہیں جن سے سخت مشقت بھی لی جا رہی ہے، ایک کارکن مسعود بھٹی کو جو گرایجویٹ ہے 20 کوڑے مارے گئے اور اب اس سے اسی جیل میں قیدیوں کی ٹائلٹس اور گٹر صاف کرائے جاتے ہیں، جھاڑو ، پوچا بھی کرایا جاتا ہے، میں یہ باتیں سن کرغمزدہ ہوا، اور سابق وزیر محترم سے درخواست کی کہ میری اپنی پارٹی کے اس کارکن سے ملاقات کرائیں، میں آزادی جمہور کے اس عظیم کارکن کو سلام کرنا چاہتا ہوں، وزیر صاحب نے اگلے روز اس سے ملوانے کا وعدہ کر لیا۔ اگلا دن چڑھا، ہم دونوں نے ناشتہ کیا، محترم سابق وزیر نے میرے یاد دلانے پر جیل کے ایک افسر سے درخواست کی کہ مسعود بھٹی کو تھوڑی دیر کے لئے ان کے پاس بھجوا دیں، دوپہر بارہ بجے سے پہلے پہلے میرے اور سابق وزیر صاحب کے گھروں سے بھی کھانا آ گیا، اس سے پہلے کہ ہم لنچ کے لئے دستر خوان بچھاتے،پیپلز پارٹی کا 20 کوڑے برداشت کرنے والا جیالا ہماری بیرک میں آ گیا، مسعود بھٹی ایک خوبصورت نوجوان تھا، اس کے چہرے پر کوئی ملال نظر نہ آیا، وہ بحالی جمہوریت کے لئے تکالیف برداشت کرنے پر نازاں تھا،اس نوجوان سے باتوں کے دوران میں نے تھوڑی دور بیٹھے ہوئے پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے سابق وزیر صاحب سے آہستگی سے کہا، کیا خیال ہے، اب کھانا نہ کھا لیا جائے؟ بھوک لگ گئی ہے، سابق وزیر محترم نے مجھ سے بھی زیادہ آہستگی بلکہ اشارے سے جواب دیا، تمہارے پاس بیٹھا ہوا یہ جیالا اپنی بیرک میں واپس چلا جائے تو کھانا کھولتے ہیں۔