جانے کس اذیت میں میں نے یہ شعر کہا تھا: اب تماشہ نہیں دیکھا جاتا نوٹ پھینکو کہ مداری جائے اب تو کوئی مداری بھی نہیں اور زرداری بھی نہیں پھر یہ عزادری کیا ہے اور ساتھ ہی یہ دلداری کیا ہے۔ کیا ہمارا محبوب ان کا بھی لاڈلا نکلا کہ چاند مل گیا تو چاند کا ہو گیا۔ کچھ بھی تو ممکن نہیں۔ زندگی میں رنگ بھرنے کا وعدہ کرنے والے موجود خاکے کو بھی مٹانے لگے۔ جینا تو کیا یہ تو مرنے بھی نہیں دیتے کہ کوئی سکون سے یا آرام سے مر جائے: چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام بر ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو واقعتاً اکثر بوڑھے لوگ ہی دوائیوں کے طلبگار ہوتے ہیں اور ان کا شکار بھی۔ خیر شکاری تو ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔ بات ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔ اصل میں علی الصبح میری نظر اس شہہ سرخی پر پڑی کہ ’’حکومت کا عوام کے لئے ایک اور تحفہ‘ ادویات9تا 15فیصد مہنگی‘‘ یہ تو سرخی کی بات تھی وگرنہ خبر کے اندر اور عملاً یہ پہلے ہی کئی فیصد مہنگی ہو چکی ہیں۔ یقینا حکومت کے پاس بھی جواز ہے کہ ادویات کی دستیابی اور انڈسٹری کے فروغ کے لئے یہ اضافہ ناگزیر تھا۔ ظاہر ہے انڈسٹری کا فروغ اور کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ انڈسٹریاں سیاسی پارٹیوں کے فروغ کے لئے بھی تو ان کو چندا دیتی ہیں اور پھر من مانیاں کرتی ہیں‘ لالچی سرمایہ دار بے حس ہی نہیں بے حیا بھی ہوتا ہے۔ اسے غیر انسانی دھندا کرتے ہوئے ایک لمحے کو خیال نہیں آتا کہ اخلاقیات نامی چیز بھی کوئی ہوتی ہے یا یہ کہ کہیں کوئی پوچھنے والا بھی ہے اور کوئی یوم حساب بھی ہے۔ سنتا وہ بھی ہو گا کہ ’’ہم دیکھیں گے!‘‘ یہ بدبخت سب کو بلیک میل کرتے ہیں سب سے پہلے زندگی بچانے والی ادویات غائب کرنا شروع کرتے ہیں۔ ایسی ادویات جو ذہنی مریض استعمال کرتے ہیں اور وہ بے چارے روزانہ کی بنیاد پر نہ جانے کیسے افورڈ کرتے ہیں۔ جب یہ دستیاب نہیں ہوتیں تو ان مریضوں کے متعلقین بھی ٹینشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میڈیکل سٹور والے اپنی جگہ پریشان ہوتے ہیں۔ ہوا پھیل جاتی ہے کہ دوائی مہنگی ہو کر آئے گی۔ مثال کے طور پر ٹیگرال ایک ٹیبلٹ ہے جو عام ذہنی مرض کے لئے استعمال ہوتی ہے پہلے بھی کئی بار مہنگی ہو چکی ہے یہ کمپنیاں ہر حکومت کو بے بس کر دیتی ہیں۔ ابھی کچھ تنظیمیں کہہ رہی ہیں کہ فیصلہ واپس لیا جائے اور جے آئی ٹی بنائی جائے مگر ہونا ہوانا کچھ نہیں ہے کہ دوائیاں مہنگی کرنے والوں کے پاس بھی جواز ہے کہ ڈالر 30فیصد مہنگا ہو چکا اور اس کے علاوہ دوائیوں کی پیکنگ کی کاسٹ زیادہ ہو چکی ہے۔ ان کو تو مہنگا کرنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے وہ حکومت مہیا کر چکی ہے۔ خیر دوائیوں کی گرانی تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی اس حکومت کے قابو میں نہیں آ رہے یا یوں کہیں کہ وہ صرف بڑے بڑے مسائل ہی دیکھ رہی ہے‘ ننھے منے مسائل ان کی ترجیحات ہی نہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ ایک سڑک جسے بند روڈ کہتے ہیں مصروف ترین سڑک ہے‘ خاص طور پر اورنج ٹرین کی تعمیر کے دوران سارا ٹریفک کا زور اسی بندر روڈ پر ہے کئی دن سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اس میں پانی سے باعث بڑے بڑے کھڈے پڑ گئے ہیں۔ یقینا کہیں سے گندا پانی سڑک پر آ گیا؟ اور دو چار سو فٹ سڑک اس نے برباد کر کے رکھ دی ہے۔ اس جگہ سے ساری ٹریفک ہچکولے کھاتی گزرتی ہے۔ معلوم نہیں یہ کس محکمے کی ذمہ داری ہے اور اس کے نوٹس میں ہی یہ بات نہیں آئی کہ سڑک گندے پانی کے جوہڑ میں بدل رہی ہے۔ سچی بات ہے مجھے تو شرم آنے لگی کہ کس قسم کے یہ ادارے ہیں اور کتنے بے رحم لوگ ہیں کہ ملک کی پراپرٹی ان کے رحم و کرم پر ہے۔ آغاز ہی سے کنٹرول کر لیا جاتا تو یہ نقصان نہ ہوتا اب اس سڑک پر کروڑوں اٹھیں گے فی الحال تو اس پر کسی کی نظرہی نہیں پڑ رہی۔ سب اس گندے پانی اور ٹوٹی سڑک کو اپنا مقدر سمجھ کر وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا جسے معلوم ہے کہ سڑک کس کے ادارے کے تحت آتی ہے انہیں اطلاع ہی کر دے۔ چند روز اور ایسے رہا تو وہاں سے کوئی گزر نہیں سکے گا۔ کیا میں اب بھی نہ کہوں کہ قیدی شہباز شریف کا دور ہوتا تو شاید اتنی غفلت پر وہ محکمے کے لوگوں کو طلب کرتے۔ شہباز شریف میں لاکھ عیب سہی مگر اس وقت کوئی پرسان حال تو تھا۔ اسی طرح ایک سڑک ہے جو مرغزار میں کھوکھروں کے گھروں سے ہوتی ہوئی ٹھوکر نکلتی ہے۔ اب کھوکھروں کی حکومت ہے مگر وہ سڑک ایسی ہو چکی ہے کہ آثار قدیمہ والے بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ یہاں کوئی سڑک تھی۔ کھوکھروں کے پاس بھی اتنا وقت کہاں وہ تو صرف اسمبلی تک پہنچتے ہیں۔ پھر اب تو ان کی قبضہ مافیا کے طور پر بھی کافی شہرت ہو چکی۔ انہیں پتہ ہے حکومت کوئی بھی ہو کوئی نہ کوئی کھوکھر ہی منتخب ہو گا کہ عام شریف آدمی اس دور میں الیکشن لڑنے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ اپنے علاقے پر بھی خرچ نہیں کرتے۔ اس سڑک کو دیکھ کر مصطفی زیدی کا شعر یاد آتا ہے: انہی پتھروں پر چل کر اگر آ سکو تو آئو میرے گھر کے راستے پر کوئی کہکشاں نہیں ہے ویسے یہ بات بھی نہایت دلچسپ ہے کہ ان ایم این ایز اور ایم پی ایز کی افادیت تو میاں برادران نے ختم کر دی تھی یا پھر کسی کو کبھی افادیت کا حامل ہونے ہی نہیں دیا کہ 18‘19وزارتیں تو ان کے اپنے پاس ہوتی تھیں۔ اب تو حکومت کے پاس بس دو تین لائوڈ سپیکر ہیں اور باقی آنکھ میں ڈالے بھی نہیں رڑکتے۔ وہی باکمال جملہ جو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ اس ملک کا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کون کہتا ہے کہ نظام نہیں چلتا ‘ اچھا خاصا چل تو رہا ہے کہ‘ کھا تو رہا ہوں پی تو رہا ہوں: ’’جینا اور کسے کہتے ہیں اچھا خاصا جی تو رہا ہوں‘‘ اب بھی پچھلے ادوار کی طرح لگ رہا ہے کہ احتساب سب کا ہو گا مگر ساتھ ہی ساتھ چودھریوں سے شروع ہونے والی ایک مرتبہ پھر چودھریوں پر ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں ہر مرتبہ ایسا کیوں لگتا ہے کہ سب کا احتساب ہو کر رہے گا مگر پھر رفتہ رفتہ کرپشن کی بو مرنے لگتی ہے یعنی ختم ہو جاتی ہے اور نئی بہو گھر کی فضا سے مانوس ہو جاتی ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ ابھی کچھ بھرم رہ گیا کہ اصغر خاں کیس بند کرنے کی سفارش چیف جسٹس نے مسترد کر دی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوئی ہے کہ ہمارے ایک سخن شناس فوجی ذمہ دار نے ٹی وی پر بیٹھ کر سرعام اعتراف کیا تھا کہ پیسے سیاستدانوں میں باقاعدہ بانٹے گئے تھے اور مسئلہ پھر وہیں ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ دوسری بات یہ کہ یہ بلی نہیں بلکہ بلا ہے۔ یہ بھی شکر ہے کہ کالم کی سپیس ختم ہو گئی وگرنہ کوئی ایسی بھی لکھی جاتی جو نہیں لکھی جانی چاہیے۔ ظہور نظر یاد آئے: رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہے چاروں طرف جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں آپ سمجھ تو گئے ہونگے ایک شعر کے ساتھ اجازت: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ