یہ جو گائے کا معاملہ ہوا ہے اور وفاقی وزیر اعظم سواتی کا اور آئی جی کے تبادلے کا اور مارپیٹ اور تھانے کچہری کا… تو اس سے ایک بار پھر وہ تین نحوستیں، لباس اتار کر، برہنہ حالت میں، قوم کے سامنے آ گئی ہیں جو ستر برس سے کالے بادلوں کی طرح چھائی ہوئی ہیں۔پہلی نحوست یہ ہے کہ نوکر شاہی بالعموم اور پنجاب اور وفاق میں بالخصوص،عوام کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہے نہ فون سنتی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ آئی جی نے بائیس گھنٹے تک ان کا فون نہیں سنا۔ ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کہ یہ فریاد اعظم سواتی کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی جی تو دور کی بات ہے، ایس پی، ڈپٹی کمشنر، اے سی، تحصیل دار یہاں تک کہ پٹواری تک، عام آدمی کی رسائی سے باہر ہیں۔ ایک عام شہری کے لیے ان میں سے کسی سے بھی ملاقات کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کچھ عرصہ قبل تلہ گنگ کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ وہ تجاوزات کے خلاف مہم چلا رہا تھا۔ اس بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے انتظامیہ کا نکتۂ نظر جاننا صحافتی اخلاق کا تقاضا تھا۔ کوششِ بسیار کے باوجود متعلقہ ڈپٹی کمشنر تک رسائی نہ ہو سکی۔ پھر متعلقہ کمشنر سے بات کرنے کی کوشش کی۔ بتایا گیا جہلم گئے ہیں۔ پیغام چھوڑا، یاددہانی کرائی۔ کوئی رابطہ نہ کیا گیا۔ پھر جب کالم لکھا تو باں باں شروع ہو گئی۔ فون سننا تو درکنار، نوکرشاہی کے یہ گماشتے خط کا جواب بھی سائل کو نہیں دیتے۔ ایک صاحب ترقیاتی اداروں کی سربراہی کے لیے بہت مشہور تھے۔آج ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسی قبیل کے ایک منصب پر فائز ہیں اور ماشاء اللہ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے اکثر و بیشتر سکینڈلوں میں آپ کا اسمِ گرامی ہی سامنے آ رہا ہے۔ جن دنوں وفاقی حکومت کے ترقیاتی ادارے کے سربراہ تھے۔ ان سب مقامات کا خوب خیال رکھتے تھے جو بڑی شاہراہوں کے کنارے واقع تھے۔ رہا شہر کا اندرون، تو وہ ان کی توجہ سے محروم تھا۔ جسے یقین نہ آئے، آج بھی جا کر میلوڈی مارکیٹ، سپرمارکیٹ، جناح سپر، مرکز ایف ٹین، پشاور موڑ اور دیگر بازاروں کو دیکھ لے۔ غلاظت کے گڑھ ہیں اور راجہ بازار سے بدتر! بڑی شاہراہ کے کنارے انہوں نے پارک بنوایا۔ کچھ شہریوں نے ان صاحب کو خط(یا درخواست) بھیجی کہ نماز ادا کرنے کے لیے چھوٹا سا چبوترہ بنوا دیں۔ پھر یاددہانیاں(ریمائنڈر) بھیجے۔ کوئی جواب نہ آیا۔ رعونت سے بھرے اور احساس کم تری کے مارے، ان اہلکاروں نے دفتروں اور گھروں کے دروازوں پر تو داروغے کھڑے کر ہی رکھتے ہیں، ٹیلی فونوں پر بھی ان لوگوں نے دربان مقرر کر دیئے ہیں۔ یہاں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جن دنوں ایک بہت ہی سینئر ادیب، جو اب مرحوم ہو چکے ہیں، کمشنر تعینات تھے۔ حفیظ جالندھری ان سے ملاقات کرنے ان کے دفتر گئے۔ دربان نے روکنے کی کوشش کی مگر حفیظ صاحب کہاں رکنے والے تھے۔ اندر گئے اور کہا کہ ’’باہر،چھوٹے کُتے نے روکنے کی کوشش کی‘‘۔ آپ ستر بار بھی فون کریں تو ٹیلی فونی داروغہ یہی جواب دے گا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، یا ابھی آئے نہیں، یا گشت پر ہیں، یہی کلچر نچلی سطح پر بھی عام رواج پا چکا ہے۔ کلرک حتیٰ کہ نائب قاصد بھی سائل کو فقیر سمجھتا ہے۔ اعظم سواتی وزیر ہیں۔ سینیٹر ہیں۔ ثروت مند ہیں۔ بااثر ہیں۔ وفاقی سیکرٹری سے لے کر وفاقی وزیر مملکت تک، یہاں تک کہ وزیر اعظم تک۔ انہوں نے دھرتی ہلا کر رکھ دی زلزلہ برپا ہو گیا۔ قیامت آ گئی۔ متعلقہ وزیر مملکت نے ان کے گھر کا باقاعدہ دورہ کیا۔ وزیر اعظم نے زبانی حکم دیا کہ آئی جی کو تبدیل کر لیا جائے۔ اب جو مرضی ہے، عذر تراشتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تبادلہ پہلے سے زیر غور تھا۔ اصل بات یہی ہے کہ اس تبادلہ کے احکام وفاقی وزیر کی شکایت پر جاری ہوئے۔ مگر عام پاکستانی کیا کرے؟ اس کا فون ڈی سی سنتا ہے نہ ایس پی، آئی جی نہ کمشنر، پٹواری نہ تحصیل دار! یہی ہے وہ مقام جہاں عام شہری اور خاص شہری کے راستے جدا ہو جاتے ہیں۔ خاص شہری کا فون نہ سنا جائے تو افسر کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ عام شہری کا گوشت، قبر میں جا کر، ہڈیوں سے الگ ہو جائے تب بھی کوئی شنوائی نہیں۔ یہ سن کر کہ آئی جی وفاقی وزیر کے فون کا جواب بائیس گھنٹے گزرنے پر بھی نہیں دیتا، وزیر اعظم کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا اس کا حل آئی جی کا تبادلہ تھا؟ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان بائیس برس تک یورپ اور امریکہ کی اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دیتے رہے یہ شکایت سن کر ہی تو موقع تھا، نظام تبدیل کرنے کا اور ترقی یافتہ ملکوں کی پیروی کرنے کا! وزیر اعظم نے یہ نہ سوچا کہ اعظم سواتی کو تو رسائی ہے۔ عوام کیا کرتے ہوں گے؟ یہ موقع تھا ایسا نظام وضع کرنے کا کہ کوئی افسر فون نہ سنے، یا جواب نہ دے، یا دسترس میں نہ ہو تو اس سے جواب طلبی ہو۔ سزا دی جائے۔ مگر تحریک انصاف کے وزیر اعظم نے وہی کیا جو نون لیگ کے اور پیپلزپارٹی کے زمانے میں ہوتا آیا ہے یعنی اگر آپ کی رسائی وزیر اعظم تک ہے تو افسر کو سزا ملے گی۔ رسائی نہیں تو خاموش بیٹھ جائیے۔ یہ نحوست بدستور چھائی ہوئی ہے۔ چھائی رہے گی۔ دوسری نحوست جو اس واقعہ سے ایک بار پھر پوری ہولناکی کے ساتھ سامنے آئی ہے یہ ہے کہ اس ملک میں دو پاکستان ہیں۔ ایک امرا کا ایک عوام کا۔ جہاں اعظم سواتی کا فارم ہے، وہاں با اثر طبقے سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے لوگوں کے سینکڑوں فارم ہیں۔ قانون کی رُو سے یہ فارم صرف سبزی اگانے اور پولٹری مصنوعات کے لیے وجود میں آئے تھے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں ترقیاتی ادارے نے بااثر مالکان کو فارموں میں محلات تعمیر کرنے کی اجازت دے کر اپنے قانون کو خود ہی روند ڈالا۔ اب یہ علاقہ ریٹائرڈ جرنیلوں، وزیروں، حکمران طبقے کا قلع بن چکا ہے۔ یہ فارم وہ کام نہیں کر رہے جس کے لیے بنائے گئے تھے۔ ترقیاتی ادارے نے قانون تبدیل کر کے با اثر طبقے کے بوٹ پالش کرنے کا کردار ادا کیا۔ اس ملک پر چھائی ہوئی یہ دوسری نحوست ہے۔ جو اصل میں، نحوست کم اور لعنت زیادہ ہے۔ قانون امیروں کے لیے لچکدار ہے۔ موم کی ناک کی طرح۔ جدھر فائدہ ہے، اُدھر موڑ دیجیے۔ غریبوں کے لیے سخت بے لچک۔ لوہے کی سلاخ کی طرح۔چیخیں، چلائیں، سینہ کوبی کریں بال نوچیں، دیوار سے سرٹکرائیں، کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ؎ اسیرو! کچھ نہ ہو گا شور و شر سے لپٹ کر سو رہو زنجیرِدر سے کیا ان ناجائز تعمیرات کو، ان محلات کو نہیں گرایا جائے گا؟ کیا اُس وزیر یا بیورو کریٹ کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جائے گا جس نے قانون میں تبدیلی کی؟ کیا اُس وقت کے صدر پرویز مشرف سے اس ظلم، اس نا انصافی، قانون کو بوٹ تلے روندنے کی اِس شرم ناک حرکت کا نہیں پوچھا جائے گا؟ اس نحوست کے چھٹنے کے آثار دور دور تک نہیں نظر آ رہے! اپرکلاس اپر کلاس ہی رہے گی! قانون سے ماورا!زرداری ہوں یا شریف برادران! ریٹائرڈ جرنیل ہوں یا حکمرانوں کے سامنے رکوع میں جھکنے والے بیورو کریٹ۔ ان کی دنیا الگ ہی رہے گی۔ اصغر خان کیس کہاں گیا؟ سابق جرنیل نے کتاب لکھی، اسے طلب کیا گیا، کیا بنا؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم،اسحاق ڈار، جہانگیر ترین، ڈاکٹر عاصم سب مزے میں ہیں۔ ایک پائی کوئی نہیں واپس دے رہا۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی تیسری نحوست کا حال اگلی نشست میں پڑھیے۔