کوئی شک نہیں کہ قوم سے وزیر اعظم کا خطاب بہت اچھا اور تاریخی تھا۔ ایسا اچھا خطاب آج سے پہلے کسی وزیر اعظم نے نہیں کیا۔شک کی گنجائش اس لیے نہیں کہ سبھی ٹی وی چینل اور اخبارات اسے بہت اچھا کہہ رہے ہیں چنانچہ مطلب صاف ہے کہ بہت اچھا ہو گا تبھی تو بہت اچھا کہہ رہے ہیں۔ کسی کو اگر اتنا اچھا نہیں لگا تو ظاہرہے‘اس کے سمجھنے میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ خطاب میں وزیر اعظم نے 30وعدے پیش کئے۔ پیش نہیں کئے بلکہ دھرائے۔ اپنے ماضی کے سینکڑوں خطابات میں وہ یہ وعدے اتنی بار دھرا چکے ہیں کہ قوم ان کی ’’حافظ‘‘ ہو گئی ہے۔ ایک اخبار کی شہ سرخی ہے تبدیلی کا پروگرام آ گیا۔ پروگرام نہیں فی الحال وعدے اکٹھے کئے گئے ہیں۔ پروگرام ابھی بنے گا۔ وعدوں کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کو تمام مسائل سے پاک کر کے جنت بنا دیا جائے گا۔ ظاہر ہے یہ بڑا کام ہے۔ سو دن میں نہیں ہو سکے گا‘ دو چار دن اوپر نیچے ہو سکیں گے۔ ابھی عملیات مطلب عمل شروع ہونا ہے۔ پنجاب کی حد تک تبدیلی کا آغاز ’’سرداری نظام‘‘ کو بحال کر کے کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے ھاتف غیبی نے بتایا ہو کہ پنجاب کو جنت نظیر بنانے کا کام قبائلی سردار کو وزیر اعلیٰ بنانے سے ہو گی۔ تبدیلی کا پانی سرداری مٹی سے ہی نکلے گا۔ ٭٭٭٭٭ ایک گھنٹہ پانچ منٹ کے خطاب میں تین باتیں سب سے اہم تھیں جو یہ ہیں نمبر ایک مسئلہ کشمیر ‘ نمبر دو سی پیک‘ نمبر تین آزادی صحافت۔ ارے ‘ آپ سر کھجانے لگے ؟ آپ کا کہنا ہے کہ ان تین باتوں کا تو پوری تقریر میں ذکر ہی نہیں ہوا‘ پھر یہ اہم کیسے ہو گئیں۔ ارے بھئی وہی تو ان تین باتوں کا ذکر نہ ہونا ہی سب سے اہم ہے۔ حاصل تقریر یہی تین باتیں تھیں جن کا ذکر نہیں ہوا ؎ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں ’’وہی وہ بات ہے جو خوشگوار گزری ہے‘‘ مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کرکے وزیر اعظم نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حقیقت پسند وزیر اعظم ہیں۔ حقیقت کو ماننا بڑی بہادری کی بات ہے چنانچہ وہ پہلے بہادر وزیر اعظم ہیں۔ حقیقت کو مان لینا دانشمندی ہے‘ اس طرح وہ ملک کے پہلے دانشمند وزیر اعظم بھی ہوئے۔ اور سی پیک تو وہ رومال ہے جسے غتر بودکرنے کے لیے میلہ چہار سالہ سجایا گیا۔ جو غتر بود ہے وہ تو غتر بودھی ہے‘ خطاب میں شامل کر کے حاصل شدہ کو حاصل کرنے کی کیا ضرورت۔ آزادی صحافت ملک کے لیے مضر صحت شے مانی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے اس کا ذکر نہ کر کے ثابت کیا ہے کہ انہیں عوامی اور قومی صحت عزیز ہے۔ سنا ہے پہلے سو دنوں میں جو کام کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ اس بچی کھچی مضر صحت شے کا ڈینگی مچھر کی طرح خاتمہ کیا جائے گا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بڑی حد تک ڈینگی سے پاک ہو چکے ہیں‘ سوشل میڈیا باقی ہے‘ اگلے سو دنوں کا واحد کریش پروگرام بھی ہو گا ایسا خود پی ٹی آئی کے حلقوں سے سنا ہے۔ باقی وعدے و عید بعد کے دنوں میں زیر غور آئیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے ایک خوش آئند اعلان یہ کیا کہ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کروں گا۔ یہ کام آئی ایم ایف کی مدد سے پورا نہ ہو سکے گا۔ اس کے لیے عالمی بنک سے بھی مدد حسنہ درکار ہو گی۔ اس کے بعد قوم اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے گی اور یوں وہ دن بھی آ جائے گا۔ جس کی نوید وزیر اعظم نے ان لفظوں میں دی کہ کوئی شخص زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ سبھی دینے والے ہوں گے۔ مجبوراً ہمیں اپنی زکوٰۃ پھر آئی ایم ایف کو دینا ہو گی کیونکہ لینے والا اور کوئی تو ملے گا نہیں۔ ٭٭٭٭٭ خطاب میں ایک حصہ سب سے اہم ہونا تھا لیکن وہ بوجوہ ترک کرنا پڑا حالانکہ اس کے لیے الفاظ کے چنائو نشست و برخواست کے لیے کچھ خاص دانشوروں کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔ یہ خطاب سابق نا اہل سزا یافتہ کے دور میں ان شاہانہ اخراجات سے متعلق تھا جن پر قوم کے ٹیکس سے بھاری رقم صرف ہوئی۔ پردھان منتری بھون کے عملے سے ان اخراجات کی تفصیل مانگی گئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب اخراجات نااہل‘ بددیانت‘ سزا یافتہ اپنی جیب سے کرتے رہے۔ نئی قوم کے نئے بابائے قوم پہلے تو سمجھے کہ عملہ مذاق کر رہا ہے پھر چیک وغیرہ نقول دیکھیں اور صبر جمیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطاب کا وہ حصہ القط کر دیا۔ ٭٭٭٭٭ تبدیلی والی کابینہ کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایسا خطاب فرمایا کہ خارجہ پالیسی کی تعریف اور معنی ہی بدل ڈالے ہیں‘ یعنی تبدیلی کا آغاز یوں ہوا۔ فرمایا ہماری خارجہ پالیسی پاکستان سے شروع ہو گی‘ پاکستان پر ہی ختم ہو گی۔ گویا یہ تاریخ کی پہلی خارجہ پالیسی ہو گی جو اندرون ملک نافذ ہو گی اس کا ’’خارج‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ خبریں یوں آئیں گی وزیر خارجہ نے گزشتہ روز کراچی کے میئر سے مذاکرات کئے اور دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ کی گورنر بلوچستان سے ملاقات‘ تعاون اور مفاہمت کے کئی سمجھوتوں پر دستخط۔ وزیر خارجہ کی کمشنر ملتان ڈویژن سے ملاقات دو طرفہ مسائل مذاکرات سے حل کرنے کا فیصلہ۔ یوں ایک اور نظر سے دیکھئے تو وزیر خارجہ کا بیان بھی حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ ظاہر ہے خارجہ پالیسی کو خارج سے جوڑنے کا حکومت سے کیا تعلق یہ جن کا کام ہے انہیں کو ساجھے‘ ہم اپنی ’’خارجہ‘‘ پالیسی کو داخل تک ہی محدود رکھیں گے۔ ٭٭٭٭٭ کل قربانی ہے ایک مزے دار سرخی اس حوالے سے قربانی کے مضمون کی نظر سے گزری۔ لکھا ہے عید قربان خدا کی رضا پر اپنی ہر شے قربان کرنے کا نام ہے۔ ذرا اس کا مطلب بھی سمجھا دیتے۔ ایسا کہاں ملیں گے جو یہ کرتے ہوں گے کل پرسوں کی بات ہے‘ ایک پڑوسی کئی لاکھ روپے کے دو بکرے لایا اور بچوں کو ساتھ لے کر انہیں گھما رہا تھا۔ پوچھنے پر بڑے فخر سے قیمت کا بتایا۔ عرض کیا اتنے مہنگے‘ بولے بچوں کی خوشی کی خاطر سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ گویا معاملہ بچوں کی خوشی کا تھا۔ کسی ایسے ملک میں ہوتے جہاں مسلمان برائے نام ہیں اور بکروں کے مقابلے نہیں ہوتے تو وہاں بچوں کی خوشی کے لیے مہنگے بکرے نہیں‘ مہنگے ٹرکی پرندے خریدتے۔ بتائیے اس میں خدا کی رضا پر ہر شے قربان کرنے کی بات کہاں گئی؟ اور بچوں کی خوشی کے ساتھ ساتھ ایک اور خوشی بھی ہوتی ہے دوسروں کو یہ دکھانے کی خوشی کہ ہمارے پاس تم سے کہیں زیادہ پیسہ ہے۔ ہم اتنے کا بلکہ اتنے سے بھی زیادہ کا بکرا خرید سکتے ہیں تم کیا خرید سکتے ہو چپڑ سنجو۔ شاید اسی کو خدا کی رضا آج کل کے زمانے میں کہتے ہیں۔ ایسی قربانی کی قبولیت کے کیا پوچھنے! ٭٭٭٭٭ سنا ہے امریکہ اگلے تین ماہ میں طالبان پر کوئی بڑا حملہ کرنے والا ہے۔ بڑی جہالت ہے اور کیا ہے۔ طالبان سے امریکہ کو کیا پرخاش ہے۔ طالبان امریکہ کے دشمن کب ہیں۔ ان کی امریکہ سے جنگ ملا عمر کے زمانے میں تھی اب تو وہ کسی امریکی کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔ اس کا بال تک بیکا نہیں کرتے۔ طالبان کی جنگ پشتون قوم سے ہے۔ امریکہ بھی پشتونوں کی آبادی کم کرنے کو بہبود اور ترقی و تعمیر کا کام سمجھتا ہے۔ اس پر اس کی بھاری رقم لگتی ہے۔ طالبان یہ کام کرتے ہیں تو امریکہ کا پیسہ بچاتے ہیں۔ پھر امریکہ ان پر حملہ کیوں کرنا چاہتا ہے۔ سنا ہے طالبان نے امریکہ سے براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی ناقابل فہم بات۔ ان کا امریکہ سے کیا لینا دینا۔ ان کی اور حقانی نیٹ ورک کی جہادی سرگرمیاں تو پشتونوں کے خلاف ہیں۔ شاید مشترکہ ایکشن پلان کی بات دل میں ہو‘ واللہ اعلم!۔