ملک کو درپیش چیلنجز اور معاشی صورتحال کے باعث وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ 21ماہ کے دوران وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں 1ہزار630فیصلے کئے ۔قومی وعوامی مفاد کے امور سے متعلق کئی کابینہ اجلاس تین گھنٹوں سے بھی زائد طویل رہے۔ وزیراعظم اور ارکان سر جوڑ کر بیٹھے اور خلوص نیت سے فیصلے کئے مگر ان فیصلوں کے نتائج اسکینڈلز اورعوامی مشکلات میںبے پناہ اضافے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔وزیراعظم نے اب وجوہات جاننے کیلئے وزارتوں اور افسران کی انکوائری اور بازپُر س شروع کردی ہے۔ جواب طلبی کے اس عمل کے دوران ایسے انکشافات ہوئے کہ سب چکرا کر رہ گئے ۔وزراء حکومتی فیصلوں کی اونرشپ لینے کو تیارنہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا چہرہ اور وزیراعظم کا انتہائی قابل اعتماد تصور کئے جانے والا وفاقی وزیر کبھی اس قدر پریشان دکھائی نہیں دیا ۔ پریشان کیوںنہ ہوتے کہ اپنے ہی نشمین پر بجلیاں گرانے میں ملوث جوپائے گئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے ‘لاک ڈاؤن او ر کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کی انتہا ء پر وفاقی حکومت نے اگست 2019ء میں بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے تمام اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کردی ۔ کراچی سے وابستہ فارماسوٹیکل صنعت کے مالکان نے شہراقتدار کا رخ کیا‘وزراء میں لابنگ کی اوربھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد پر پابندی ہٹوالی ۔ کابینہ نے فیصلے میں واضح لکھا کہ بھارت سے صرف جان بچانے والی ادویات درآمد کی جاسکیں گی۔ اس مرحلے پر نوٹیفکیشن وزارت تجارت نے جاری کرنا تھاجس کا قلمدان کراچی کی ہی معروف کاروباری شخصیت رزاق داؤدکے سپرد تھا۔ستمبر 2018ء میں نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی فارماسوٹیکل مالکان نے ملٹی وٹامن سمیت مختلف 429ادویات کا خام مالـ‘52تیارشدہ ادویات اور12ویکسین بھی دھڑا دھڑ درآمد کرتے ہوئے اربوں روپے بھارت منتقل کردئیے۔وہ ادویات بھی درآمد کی گئیں جن کا شمار جان بچانے والی ادویات میں نہیں ہوتا‘جوپاکستان میں تیار بھی کی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ مارچ 2020ء تک جاری رہا۔ جب وزیراعظم کو اس واردات کی بھنک پڑگئی۔ خاکسار نے 16مارچ کو92نیوز کے پروگرام نائٹ ایڈیشن میں خبر بریک کی کہ وزیراعظم نے وزارت صحت سے رپور ٹ طلب کرلی ہے۔ رپورٹ کابینہ میں پیش ہوئی تو سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ وزیراعظم نے مشیر احتساب شہزاد اکبر کو انکوائری سونپ دی۔ پھرانکوائری میں انکشاف ہوا کہ فارماسوٹیکل صنعت کے ’رنگ بازوں‘نے وزارت تجارت کے ستمبر 2019ء کوجاری کردہ نوٹیفکیشن میںوفاقی کابینہ کے فیصلے کیمطابق ’لائف سیونگ ڈرگز ‘ شامل ہی نہیں ہونے دیں۔وزارت صحت نے ذمہ داری وزارت تجارت پرڈال دی۔ کراچی سے فارموسوٹیکل کے صنعتکاراسلام آباد پہنچ چکے ہیں چونکہ آئندہ ہفتے انکوائری رپورٹ کابینہ میں پیش کی جائے گی۔کارروائی کیا ہوگی‘ کہنا قبل ازوقت ہے مگر وزارت صحت نے کابینہ سے دلچسپ شرط عائد کرواتے ہوئے ہینڈ سینی ٹائزر ایکسپورٹ کی اجازت حاصل کرلی ہے۔ 16سے زائد وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں میں قانون اور قواعد وضوابط سے ہٹ کرافسران کی تعیناتیوں اور فیصلہ سازی پر وزیراعظم سخت نالاں ہیں۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر تعینات ہونیوالے افسران کو فارغ کرنے کیلئے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ یہی نہیں ‘وزیراعظم ایسے افسران کے کئے جانے والے فیصلوں پر نوٹس بھی لے رہے ہیں جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیںـ‘ایک بڑی مثال پٹرولیم ڈویژن میں خلاف ضابطہ تعینات افسر کی وجہ سے قومی خزانے کو 50 ملین ڈالر سے زائد نقصان پہنچا ۔وزیراعظم نے نوٹس لیاتو وزیراعظم کی منظوری کے بغیر تعینات کئے گئے ڈائریکٹرجنرل پٹرولیم کنسیشن عمران احمد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ خلاف ضابطہ تعینات افسر 7ماہ کے دوران قومی خزانے کومبینہ طور پر بھاری نقصان پہنچانے کا موجب بنا۔ عمران احمد نے اہلیت اور مطلوبہ افرادی قوت نہ ہونے کے باوجود سیکرٹری پٹرولیم اسد احیاء الدین سمیت تین سرکاری افسران اور دو عالمی کمپنیوںکی تھرڈ پارٹی رپورٹ مسترد کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا۔نیب کی انکوائری شروع ہوچکی مگرا ب عمران احمد کو ڈائریکٹر ٹیکنیکل پٹرولیم کنسیشن تعینات کرکے نیب انکوائری ٹھپ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ قومی خزانے کے محافظوں کونیب انکوائری مکمل ہونے تک عمران احمد کو پٹرولیم کنسیشن ونگ سے ہی الگ کردینا چاہئے تھا مگربااثر شخصیت اس اقدام کی راہ میں آڑے آچکی ہے۔ فرٹیلائزر سمیت مختلف صنعتکاروں کو گزشتہ سال گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں غریب کسانوں اور عوام سے وصول شدہ 220ارب روپے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معاف کئے گئے ‘سب سے زیادرقم 140ارب فرٹیلائزرمالکان کو معاف کی گئی۔ میڈیا نے معاملہ اٹھایا تو حکومت نے فیصلہ واپس لے لیا مگر واردات یہ ڈالی گئی کہ کابینہ نے رقم معاف کرنے سے قبل فرٹیلائزر مالکان کا فرانزک آڈٹ کرنے کی جوہدایت کی تھی اُسے وزارت صنعت وپیداوار نے حتمی فیصلے سے نکال دیا ۔ وزیراعظم کو پتا چلا تو سردھنتے ر ہ گئے۔ گزشتہ ہفتے 5سوروپے‘1ہزاراور5ہزار روپے کے نوٹ بغیراہم سکیورٹی فیچرز‘ وارنشنگ کے چھاپنے کی واردات ڈالنے کی کوشش کی گئی جسے کابینہ ارکان نے جعلی نوٹوں کی بھرمار کے خدشے پر مسترد کردیاکیونکہ ملک بھر میں 200ارب روپے سے زائد رقم کی تقسیم کا عمل جاری ہے۔ ملک اور عوام کی تقدیربدلنے کی کوششیں محض بند کمرہ فیصلوں کی ہوشرباتعداد سے کارگر نہیں ہوںگی۔ حکومتی صفوں میں موجود مفاد پرست عناصر کو کیفرکردار تک پہنچائے بغیرتقدیر نہیں بدلے گی۔ خان صاحب !وقت کم ہے اور اہداف سخت‘صرف تین وزارتوں کوہی بدل لیں ‘ کیونکہ نیب اور ایف آئی اے پہلے ہی تحقیقات کرتے کرتے ہانپ چکے ہیں۔ منیر نیازی برــملا یاد آئے: منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفرآہستہ آہستہ !!