ایک دن ہم نے بیٹھے بٹھائے حکیم جی سے پوچھ لیا کہ ہمارے دوست زاہد منیر عامر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انگشتِ شہادت سے اشارہ کر کے پوچھنے لگے: ’وہ جو مولوی صاحب ہیں؟‘ عرض کیا: ’بھئی وہ نرے مولوی نہیں ہیں، شاعر بھی ہیں!‘ فرمانے لگے: ’تم جو بھی کہو یہ دو خامیاں انسانی وجود ایک وقت میں برداشت کر ہی نہیں سکتا۔‘ ہم نے حکیم جی کو مطلع بلکہ متاثر بلکہ مرعوب کرنے والے انداز میں بتایا: ’وہ ایک اچھے استاد بھی ہیں!‘ ’ پھر تو سبحان اللہ ہو گیا ناں!‘ ’کیا مطلب؟‘ ’تم نے ناصر صحرائی کا وہ فی زمانہ والا شعر نہیں سنا: یوں تو شاعر بھی ہوں ، واعظ بھی ، معلم بھی میرے دامن پہ کئی داغ ہیں رسوائی کے! لالہ بسمل جو کسی زمانے میں اورینٹل سے ایم اے اُردو کرنے اور دنیاوی سوچ کے مطابق مناسب نوکری نہ ملنے کے سبب،طویل عرصہ تک ایک بڑے ہوٹل میں شیف کی نوکری کرتے رہے ہیں، وہ ایک منٹ میں ہر شاعر ادیب، دانش مند، سیاستدان کا تربیتی فارمولہ یا علمی ریسیپی تیار کر کے ہاتھ پہ رکھ دیتے ہیں۔ ہم نے لالہ سے آسان لفظوں میں زاہد منیر عامر کی تعریف دریافت کی تو جھٹ بولے: ’ یہ کون سا مشکل کام ہے؟ آپ احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کے بھُرتے کو تھوڑا سا نعیم صدیقی کا بگھار لگا دیں تو سمجھیں زاہد منیر عامر تیار!!‘ ہم نے فارمولہ بدلنے کی درخواست کی تو پھر بھی تاخیر نہیں کی، کہنے لگے: ’’اگر آپ کو اپنی ڈھلتی عمر کی بنا پر اب بھُرتا اور بگھار پسند نہیں رہا تو شبلی، حالی، ظفر علی خاں، شورش کو مکس ویجی ٹیبل کی طرز پہ پکا لیں، پہلے ہی دَم پر اچھا خاصا زاہد منیر عامر آپ کے سامنے!‘‘ یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ کالم کے عنوان سے آپ کی توجہ ن م راشد کے چار قسطوں میں بٹے حسن کوزہ گر کی طرف مبذول نہیں ہونی چاہییبلکہ اس عنوان سے آپ کا سارا دھیان ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے حُسنِ کوزہ گری کی جانب مرکوز ہونا چاہیے۔یعنی ان کے کاغذی چاک سے تازہ تازہ اتارے دو کوزہ گروں کی طرف، جس میں تیسرے کوزہ گر وہ خود ہیں۔ حُسنِ طباعت سے مزین یہ تازہ ترین کتاب ’دو کوزہ گر‘ اصل میں ہماری دو قومی، تہذیبی، ادبی، علمی شخصیات علامہ شبلی نعمانی، جنھوں نے برِ صغیر کے مسلمانوں کو اسلامی مشاہیرِ عرب اور ادبی مشاہیرِ عجم سے متعارف کرایا اور مولانا ظفر علی خاں، جنھوں نے ہندو ذہنیت سے خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تشخص اور اردو صحافت کے لیے عملی اور قلمی جہاد کیا، کی زیست اور کارناموں کی مہارت سے کھینچی گئی تصویر ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ دو فرزندانِ ملت کے حوالے سے محبت سے لبریز تحقیق ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ علامہ شبلی اور مولانا ظفر علی خاں پر یہ علم افزا کتاب علامہ اور مولانا ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے، جسے ایک اور علامہ عبدالستار عاصم نے خاص اہتمام سے شایع کیا ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس پر تبصرہ وہ شخص کر رہا ہے جس کے علامہ اور مولاناہونے کا دور دور کوئی امکان نہیں!!! جہاں تک ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ذہنی اور علمی ارتقا کا تعلق ہے، تو سن لیجیے کہ یہ حضرت اس عمر میں سرگودھا سے طویل سفر کر کے پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں کتابیں پڑھنے اور تحقیق کرنے آتے تھے، جب ہم گاؤں میں کرکٹ بھی گلّی ڈنڈا کے سٹائل میں کھیلا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہم کبھی غلطی یا اتفاق سے لاہور کے اس علاقے میں آ بھی جاتے تو ہماری توجہ کا مرکز یونیورسٹی لائبریری کے عین سامنے آن بان شان سے واقع بانو بازار اور وہاں کے حسابی کتابی چہرے ہوا کرتے تھے۔ ایم اے میں آتے آتے تو یہ حضرت اس قدر سچ مچ کے مہذب ہوچکے تھے کہ گھر کے علاوہ کسی چیز کا منھ تک نہ دیکھا تھا۔ جوانی میں گھر والوں کو سمجھ نہیں آتی تھی کی ان کی شادی کرائیں یا میلاد… حالانکہ اس عمر میں ہمارا اور ہم جیسے آوارگان کا پسندیدہ مشغلہ سینما ہال میں ہر اچھے سین پہ ’ببلیاں‘ بجانا ہوتا تھا۔ ویسے بھی ہماری تربیت ایسی ہوئی ہے (کی اس لیے نہیں کہا کہ کسی کو کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوئی) کہ اتنی سی عمر میں نستعلیقیت طاری کیے بچے کو دیکھ کے ہمیں دُلھا کے اعمال کی سزا کاٹتا وہ معصوم شہ بالا یاد آ جاتا ہے، جسے شیروانی پہنا کے شرارتوں، چھلانگوں، قلفیوں اور بچگانہ لا ابالی پن سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی عمر کا سورج نصف النہار پر ہے، وہ ابھی سے کتابوں کا نصف سیکڑہ مکمل کیے بیٹھے ہیں۔وہ ایک مصنف، شاعر، مؤرخ، مؤلف، مدون، مدیر،نقاد، سفرنامہ نگار، کالم نویس، مترجم اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرِ اقبالیات، ماہرِ ظفریات، ماہرِ شبلیات، ماہرِ سوزیات نیز ماہِر شیرانی، جالبی وخورشید کے اپنی دھاک بٹھائے بیٹھے ہیں۔ چند سالوں سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کے صدر کے عہدے پر متمکن تھے، ہم ابھی ان کے اس عروج پہ پوری طرح خوش بھی نہیں ہوئے تھے کہ پتہ چلا اعلیٰ حضرت راتوں رات شعبۂ زبان و ادبیاتِ اُردو کے ڈائریکٹر بنے بیٹھے ہیں۔ اب تو ہم وہاں جانے سے بھی گھبرانے لگے ہیں کہ ہم وہاں جائیں تو جانے یہ آگے سے کیا بنے بیٹھے ہوں؟اُردو، عربی، فارسی، پنجابی میں فَین سے بھی زیادہ رواں ہیں۔ مرزا کہتا ہے مَیں ان کے دفتر میں رکھے صوفوں کی تعداد اور ساخت سے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ان سے کتنے اور کس طرح کے لوگ ملنے آتے ہوں گے۔ ہم جیسے ناگفتہ قسم کے لوگوں کے ساتھ بھی شفگتہ انداز میں اتنی نستعلیق اور علمی گفتگو کرتے ہیں اور ہر ہر موضوع پہ ایسی دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ جس کی ہمیں تمام عمر حسرت ہی رہی۔ مرزا کہتے ہیں، یہ حسرت اس لیے ہے کہ تمھیں ہر بات اپنے دریدہ دہن قلم سے لکھنے کی عادت ہو چکی ہے۔ ایک دن ہم نے اپنے سب سے بے تکلف اور بے حساب دوست لالہ بسمل سے مشورہ کیا کہ ذرا حساب لگا کے بتاؤ ہم اتنے مہذب اور نستعلیق کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سن کے پہلے تو لالہ کا ہنسی روکنا مشکل ہو گیا پھر منھ پہ ہاتھ رکھ کے انگلیوں سے چھَنتی تمسخرانہ ہنسی کی لہریں بناتے ہوئے بولا: ’تم اپنی موجودہ حرکتوں کے ساتھ پستہ لیک ہو سکتے ہو،تھوڑی سی کوشش کر کے سستا لیک ہو سکتے ہو، بہت ہمت کرو تو ہنسا بستا لیک ہو سکتے ہو، نستعلیق ہونا تمھارے بس کی بات نہیں۔‘ ’’پھر بھی کوشش تو کی جا سکتی ہے ناں؟‘‘ ہم نے ترلے کے انداز میں کہا۔ ہمارے ماضی ، حال اور حرکات پہ تھوڑا سا تأمل کرنے کے بعد اس مسئلے اور مستقبل کا فیصلہ فوجی عدالتوں کی طرز پر سناتے ہوئے کہنے لگا: ’’کُش نہیں ہو سکدا، ڈھا کے بنانا پَینا ایں!‘‘