معاشی بدحالی کس طرح عوام کو سیاسی جمہوریت سے بددِل کرسکتی ہے،اسکی ایک مثال تیونس کے حالیہ واقعات ہیں۔ شمالی افریقہ کے ملک تیونس میںپچیس جولائی کوصدر مملکت قیس سعید نے پارلیمان کو ایک ماہ کیلیے معطل کردیا اور وزیراعظم ہشام المشیشی کی حکومت کو برخاست کرکے کئی اہم وزرا ء کوبھی فارغ کردیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کو صدر کے دفتر میں بلا کر ان سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا اور انہیں زدوکوب بھی کیا گیا۔ پارلیمان کی عمار ت کے باہرسیکیورٹی عملہ تعینات کردیا گیا ہے تاکہ کوئی رکن اسمبلی عمارت میں داخل نہ ہوسکے۔تین یا اس سے زیادہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی لگادی گئی ہے۔پارلیمان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت حرکت النہضہ نے صدر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا ہے جبکہ صدر کا موقف ہے کہ انہوں نے آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کا استعمال کیا ہے۔ جب صدر قیس نے وزیراعظم ہشام کو برطرف کیا تو لوگوں نے خاص احتجاج نہیں کیا۔ صرف حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے ہلکے پھلکے مظاہرے کیے جبکہ دوسری طرف صدر کی حمایت میں بھی جلوس نکالے گئے۔ تیونس شمالی افریقہ کے مغرب میں واقع ہے ۔ اسکی آبادی تقریباًسوا کروڑ ہے۔ اٹھانوے فیصد عرب بر بر مسلمان ہیں۔تیونس نچلی متوسط آمدن والا ملک ہے جہاں فی کس مجموعی داخلی پیداوار تقریباًتین ہزار ڈالر ہے۔ملک میں پیٹرولیم‘ قدرتی گیس پیداہوتے ہیں جو اسکی ضروریات کیلیے کافی ہیں ۔خام پیٹرولیم اوراسکی مصنوعات کم مقدار میں برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔اسکی معیشت کا انحصارتیل کے ساتھ ساتھ فاسفیٹ‘ کیمیائی کھادوں‘زراعت‘ برقی صنعتی مصنوعات اور سیاحت سے ہونی والی آمدن پر ہے۔ اسکے ساحل بہت خوبصورت ہیں اور ملک تاریخی ورثہ سے مالا مال ہے۔یورپی سیاح بڑی تعداد میں تیونس کا رُخ کرتے ہیں۔ یورپی ممالک خصوصاً فرانس ‘ جرمنی اور اٹلی اسکے تجارتی شریک کار ہیں۔ یورپ کی تیونس میں دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر یہاں حالات خراب ہوں تو اس ملک کے مہاجرین بحیرۂ روم عبور کرکے یورپی ممالک میں جاپہنچیں گے ۔ تیونس نے 1956 میں فرانس سے آزادی حاصل کی ۔ حبیب بورغیبا اسکے پہلے صدر تھے جنہوں نے تیس سال حکومت کی۔ صدر بورغیبا کے بعد زین العابدین صدر بن گئے۔ وہ تئیس سال تک وقفہ وقفہ سے جعلی الیکشن کرواکر آمرانہ طور پر تیونس پر حکومت کرتے رہے۔زین العابدین نے اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا ۔ تاہم انکے دور میں تیونس میں ایک بڑی مڈل کلاس وجود میں آئی۔ بیس سال پہلے انکی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے ہوئے تو وہ مجبوراًمستعفی ہوکرسعودی عرب چلے گئے۔تیونس وہ ملک ہے جہاںسے 2011 میں نام نہاد عرب بہار کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ اسوقت سے تیونس میں آئینی‘جمہوری نظام قائم ہوگیا تھا۔ تیونس کے حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر و بیشتر یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ دو ہزار گیارہ کی جمہوری تحریک سے تیونس کے عوام کو بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ انکا خیال تھا کہ جمہوریت آنے سے امیر غریب کا فرق ختم ہوگا۔ کرپشن ختم ہوگی۔ معاشی مواقع‘ روزگار میں اضافہ ہوگا۔ تاہم سب کچھ اسکے برعکس ہوا۔ جمہوریت کے نام پر حکومت سنبھالنے والے ماضی کے حکمرانوں سے بھی زیادہ کرپٹ ثابت ہوئے۔ اس پر مستزاد‘ جمہوری حکمرانوں نے انتظامی معاملات چلانے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ پارلیمان میںمخالف جماعتوں کے ارکان کے درمیان لڑائی جھگڑے‘ ہاتھا پائی معمول کی بات تھے۔جمہوری دور کے دس برسوں میں معیشت بدحال ہوتی گئی۔ حکومت کا قرض دس برسوں میں مجموعی داخلی پیداوار کے چالیس فیصد سے بڑھ کر ستّر فیصد تک جا پہنچا ہے۔ بے روزگاری کی شرح بارہ فیصد سے بڑھ کر پندرہ فیصد ہوگئی ہے۔ نوجوانوں میں یہ شرح چھتیس فیصد ہے۔اب نیچے تک پھیل گئی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میںکورونا وبا نے حالات کو مزید خراب کردیا۔ جمہوری حکومت وبا کو بہتر انداز میں قابو نہیں کرسکی۔ملک کی معیشت کورونا کی پابندیوں کے باعث آٹھ فیصد سے زیادہ سکڑ گئی۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے چودہ فیصد تک جا پہنچا ہے۔ خاص طور سے بیرون ملک سے آنے والے سیّاحوں کے نہ آنے سے بہت نقصان ہوا،جو آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ ان سب وجوہات کی بنا پر تیونس کے عوام کا ایک بڑا طبقہ موجودہ جمہوری نظام سے بددل ہوچکاہے۔ تیونس میں ایک بڑی سیاسی مشکل وہ ہے جو بیشتر مسلمان ممالک کو درپیش ہے۔یہاں پرقومی سیاست اسلام پسند اور سیکولرلبرل متحارب جماعتوں میں تقسیم ہے۔الیکشن میں کسی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔ یہاں شدت پسند تنظیمیں جیسے القاعدہ اور داعش بھی سرگرم ہیں۔ ملک کے جنوب میں پہاڑی علاقوں میں انکے مراکز ہیں۔ امریکہ اور یورپ ان تنظیموں کی موجودگی سے خائف رہتے اور تیونس کی ریاست کو انکو کچلنے کیلیے مدد فراہم کرتے ہیں۔ تیونس کے صد نے معاشی تباہی اور عوام کی بددلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور فوج کی مدد سے منتخب جمہوری حکومت کی چھٹی کرائی ہے۔ اب وہ یا تو پارلیمان کو بحال کرکے اسے نیا وزیراعظم منتخب کرنے کیلئے کہیں گے یا نئے عام انتخابات کا اعلان کریں گے۔ اگر ایسا نہیںکیا گیا توتیونس میں آئینی دور ختم ہوجائے گا اور صدرقیس سعید فوج کی مدد سے کوئی نیا سیاسی نظام لانے کی کوشش کریںگے۔ فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ تیونس کے عوام کو جمہوریت سے زیادہ معیشت اور روزگار کی فکر ہے۔ وہ جمہوری نظام کی بحالی کیلیے سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں۔ معیشت کی بحالی بہت حد تک امریکہ اور یورپ کی امداد پر منحصر ہے۔ ہوسکتا ہے وہ مالی امداد کے عوض تیونس کے حکمرانوں پر جمہوری نظام بحال کرنے پر زور ڈالیں۔