بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمانوں کی طرف سے حال ہی میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی کرنے پر جس طرح مسلم ممالک نے رد عمل کا اظہار کیا، اس سے امید بندھ گئی تھی، کہ شاید منہ بھرائی یا کم از کم ملک میں سیکولرازم کی دھندلاتی ہوئی شبہہ کو برقرار رکھنے کی خاطر وزیر اعظم نریندر مودی علامتی طور پر کسی مسلمان کو صدر یا نائب صدر کے عہدوں پر نامزد کرینگے۔ چونکہ ان کی کابینہ کے واحد مسلم وزیر مختار عباس نقوی، راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں اپنی مدت ختم ہونے کے بعد حال ہی میں مستعفی ہوئے تو لگتا تھا کہ ان کو شاید کم سے کم نائب صدر کے عہدے کیلئے ہونے والے انتخابات میں بطور امیدوار کھڑا کیا جائیگا۔ مگر مودی نے صدر کیلئے اڑیسہ سے تعلق رکھنے والی قبائلی خاتون دروپدی مورمو کو اور راجستھان کے جاٹ لیڈر جگدیپ دھنکر کو نائب صدر کیلئے بطور امیدار نامزد کیا۔ فروری ،مارچ 2002میں ریاست گجرات میں برپا مسلم کش فسادات کے بعد اسوقت کی بی جے پی حکومت نے اے پی جے عبدالکلام کو صدر مملکت کے عہدے کا امیدوار بنایا، تاکہ فسادات کے بعد ایک تو مسلمانون کی اشک شوئی کی جائے، دوسرا بیرون ملک ایک پیغام پہنچا دیا جائے، کہ ملک میں سیکولر ازم اور قدریں برقرار ہیں۔ اسی طرح دسمبر 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے ایک ماہ کے اندر ہی سلمان خورشید کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور غلام نبی آزاد کو شہری ہوا بازی کا وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو اس حد تک سیاسی یتیم اور بے وقعت بنایا گیا ہے کہ اب علامتی طور پر بھی ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔ مختار عباس نقوی کے علاوہ معروف صحافی و دانشور ایم جے اکبر اور سید ظفر امام، جو ایوان بالا میں بی جے پی کے اراکین تھے کی مدت ختم ہوگئی اور ان کو دوبارہ نامزد نہ کرنے کامطلب یہ ہے کہ 1947 کے بعد پہلی بار حکمران پارٹی کا کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ مسلمان نہیں ہوگا۔ اسی طرح مودی کی 76رکنی کابینہ میں بھی ملک میں رہنے والے 20کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں ہوگی۔ ویسے تو بی جے پی کی اتحادی بہار کی لوک جن شکتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے محبوب علی قیصر حکمران قومی جمہوری اتحاد کے واحد مسلم ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ وہ دوبار 2014اور پھر 2019میں بہار سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہوگئے۔ مگر ان کو انہی کی تنگ ذہن پارٹی کبھی وزارت میں شامل نہیں کروائے گی۔ پورے ملک میں بس ایک آئینی عہدے یعنی کیرالا کے گورنر کے عہدے پر ایک مسلمان عارف محمد خان براجمان ہیں۔ اس وقت کسی بھی ریاست کا وزیر اعلیٰ مسلمان نہیں ہے۔ 15ایسی ریاستیں ہیں، جہاں کوئی مسلمان وزیر نہیں ہے۔ اتر پردیش میں جہاں مسلم آبادی 20فیصد ہے، ایک مسلمان وزیر ہے۔ اسی طرح دہلی ، جو ایک صوبہ بھی ہے 13فیصد مسلم آبادی ہونے کے باوجود ایک ہی وزیر ہے۔ 18صوبوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے 151وزیروں میں ایک مسلمان ہے۔ پورے ملک میں کل 4120اراکین اسمبلی میں صرف 233 اراکین مسلمان ہیں۔ یہ صرف سیاست کا حال نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کے 60محکموں کے 100سیکرٹریوں میں اسوقت بس دو مسلمان علی رضا رضوی شعبہ انٹرپرایز کے سیکرٹری اور اوصاف سعید وزارت خارجہ میں سیکرٹری ہیں۔ اسی طرح ملک کی 28ریاستوں اور 8مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بس دو چیف سیکرٹری ناگالینڈ میں جان عالم اور بہار میں عامر سبحانی ہیں۔ جموں و کشمیر میں جہاں مسلم آبادی کی شرح 68فیصد سے زیاد ہے، وہاں 24سیکرٹریوں میں بس پانچ مسلمان ہیں۔ 58اعلیٰ سویلین افسران میں بس 12اور 66اعلیٰ پولیس افسران میں بس سات مسلمان ہیں۔ خطے کے 20اضلاع میں بس سات میں یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر مسلمان ہیں۔ 2014میں بی جے پی نے کل 482امیدوار میدان میں اتارے تھے ، ان میں سات مسلمان تھے۔ 2019کے عام انتخابات میں بی جے پی نے چھ امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے۔ مگر دونوں انتخابات میں ان کو بری طرح شکست ہوئی۔ وجہ کوئی بھی ہو، بھارت میں بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمانوں کو وطن میں غیر، اجنبی اور تقریباً حق رائے دہی سے محروم کردیا گیا ہے ۔کیونکہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے پولارائزیشن کی فضا قائم کرکے ہندو وٹروں کو لام بندکرکے مسلم ووٹ کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے۔ 2009کے عام انتخابا ت کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ اگر ایک فیصد مسلمان بھی ملک میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، اور اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہیں، تو ملک بے لگام ہو جائیگا۔ بھارت کے مشہور دانشور اور معروف صحافی سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other میں لکھا ہے کہ وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہیں۔ اگر اسطرح کا شخص اپنے آپ کو غیر محسوس کرتا ہے، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔ مسلمان کس حد تک سیاسی بے وزنی کا شکار ہوچکے ہیں کہ چند برس قبل کانگریس کے مقتدر لیڈر غلام نبی آزاد کو شکوہ کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے ہندو اراکین اب انکو اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعوکرنے سے کتراتے ہیں۔پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کیلئے 95فیصد درخواستیںہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب سکڑ کر محض 20فیصد رہ گئی ہیں۔وہ اکثر فخرسے کہتے تھے کہ ان کا سیاسی کیرئر اقلیتی سیاست کے بجائے بھارت کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہون منت ہے ۔2017میں گجرات کے صوبائی انتخابات کے موقع پر کانگریس نے امیدوارں کو ہدایت دی تھی، کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے ، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لئے اسے ان کی کوئی پروا نہیں، اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔نقوی کے مطابق بھارتی مسلمان ایک ٹرائنگل (مثلث) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اسکے تین ضلع کچھ اس طرح ہیں، ہند۔مسلم، بھارت ۔پاکستان اور کشمیر ۔ ان تینوں کو حل کئے بغیر مثلث کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔مگر پاکستان سے اگر صلح ہوجائے تو ہندو انتہا پسندوں کے پاس سیاست کرنے کیلئے ایشو ختم ہوجائے گا۔ آبادی کے اجتماعی رویہ میں، ان کے سیاسی نظریات سے قطع نظر یکساں توعیت کی فرقہ واریت سرایت کرچکی ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی فرقے کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ ایک غیر محسوس طریقے سے 15 ویں صدی کے آواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔ مسلمان لیڈروںاور ملی جماعتوں کو اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ایک متبادل سٹریٹیجی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟